اوسلو ناروے سے لاہور واپسی کے لئے پی آئی اے کے جہاز میں مجھے جو سیٹ ملی حسبِ خدشہ اُس میں میرے حصے میں ایک بابا جی اور اُن کے ساتھ اُن کی نصف بیمار بیگم یعنی ’’بابی جی‘‘ آئے۔ نصف بیماریوں کہ بابا جی تو تقریباً فُل بیمار تھے جبکہ اُن کے ہمراہ اماں جی غالباً اُن کو کمپنی دینے کے لئے نیم بیمار تھیں۔ ایسے میں مجھے رہ رہ کر اپنے ہر دل عزیز و ’’ہر دل لذیذ‘‘ سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔ دروغ بر گردنِ راوی جناب مستنصر حسین تارڑ دوران سفر انہیں شاید ہی کبھی ایسی ’’ناگہانی‘‘ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اُن کے حوالے سے یہی سنا اور پڑھا ہے کہ بس، جہاز، ریل گاڑی اور گدھا گاڑی کی تفریق کے بغیر سوائے خیبر پختونخوا اور افغانستان کے وہ جب بھی کسی ملکی یا غیر ملکی سفر پر نکلتے ہیں اُن کے دائیں بائیں ہمیشہ کوئی نہ کوئی پری یا جل پری بیٹھی ہوتی ہے۔ اللہ جانے ان جل پریوں اور پریوں کو تارڑ صاحب کے سفری شیڈول کی مخبری کون کرتا ہے۔ غالباً ایسی ہی صورتحال پر کسی خود ساختہ دل جلے دانشور نے یہ کہا ہے ’’پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا‘‘۔ جہاز میں سوار ہونے کے بعد سے مجھے مسلسل یہ خیال ستا رہا تھا کہ سات آٹھ گھنٹے کا یہ طویل واپسی کا سفر ان دو بیمار بزرگوں کے ساتھ کیسے کٹے گا جو میرے دائیں بائیں ایسے بیٹھے تھے جیسے میرے منکر نکیرہوں۔ اس دوران دنیا مافیا سے بے خبر اور میری موجودگی سے مکمل بے نیاز بابا اور بابی باری باری وقفے وقفے سے یوں کھانس رہے تھے گویا کسی کلاسیکی گانے میں جغل بندی کر رہے ہوں یا پھر میری حیثیت اُن کے درمیان ایک بے جان ’’نیٹ‘‘ کی ہو اور وہ میرے اوپر سے آپس میں ’’چِڑی چِھکا‘‘ کھیل رہے ہوں۔ کافی دیر بعد جب وہ دونوں بابا بابی آپس کی جغل بندی یا مسلسل ’’کھیل کھیل‘‘ کر یعنی کھانس کھانس کر تھک گئے تو دونوں اپنی اپنی سیٹ سے ٹیک لگا کر نسبتاً دھیمے سروں اور کچھ لمبے وقفوں میں کھانسنے لگے۔ کچھ دیر میں اماں جی تو تھک کے یا شاید ’’اَک‘‘ کے سو گئیں یا بیہوش ہو گئیں مگر بابا جی اکیلے ہی اپنے محاذ پر سختی سے ڈٹے رہے لیکن شکر الحمدللہ اس دوران وہ حسبِ معمول مجھ سے مسلسل بے نیازی برتتے رہے۔ موقع غنیمت جان کر میں ابھی آنکھ لگانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ بابا جی نے مجھے مخاطب کیا ’’برخوردار کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ پہلے تو میں نے وضاحت طلب نظروں سے بابا کی طرف دیکھا کہ آیا انہوں نے واقعتاً مجھے ہی مخاطب کیا ہے اور پھر بابا جی کو اپنی طرف متوجہ پا کر میں نے بڑے ادب سے انہیں جواب دیا ’’جی میں اوسلو سے ہی آ رہا ہوں جہاں سے آپ کے ساتھ جہاز میں سوار ہوا ہوں‘‘ گذشتہ دو گھنٹوں میں مسلسل کھانسی کے علاوہ باضابطہ طور پر بابا جی کی یہ پہلی آواز تھی جو میرے کانوں میں پڑی تھی ورنہ دونوں میاں بیوی کی ابتک کی مسلسل کھانسی سے میں اب یہ سوچ رہا تھا؎
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
یہ تبسم یہ تکلم تیری عادت ہی نہ ہو
یعنی میں جسے کھانسی سمجھ رہا ہوں کہیں یہ بابا بابی کی مادری زبان ہی نہ ہو ممکن ہے ان بزرگوں کا تعلق دنیا کے کسی ایسے خطے سے ہو جہاں زبان ارتقائی مرحلے میں ہے اور اس نے ابھی باقاعدہ لفظوں کی صورت اختیار نہیں کی بہرحال مجھے خوشی ہوئی کہ میرا گمان غلط نکلا۔ گفتگو آگے بڑھی تو پتا چلا کہ بابا جی گذشتہ پچاس برس سے اپنے خاندان کے ساتھ ناروے میں مقیم ہیں اور اس و قت عمر عزیز کی اٹھاسی بہاریں دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے اگلا سوال پوچھا ’’کیسے آئے تھے؟‘‘ میں نے کہا ’’یومِ پاکستان کے حوالے سے زہرہ منظور ویلفیئر سوسائٹی کے زیرِ اہتمام اوسلو میں منعقدہ ایک تقریب میں ملک کی نامورہ گلوکارہ ثریا خانم اور معروف شاعر عذیر احمد کے ہمراہ شرکت کیلئے حاضر ہوا تھا جس کے بعد اب واپس جا رہا ہوں‘‘۔ کہنے لگے ’’ناروے اچھا ملک ہے یہاں مستقل کیوں نہیں رہ جاتے؟‘‘۔ میں نے کہا ’’عمر کے اس حصے میں اب میں یہ افورڈ نہیں کر سکتا کہ نئے سرے سے اپنی شناخت بنانے کے لیے اس ملک میں دس پندرہ برس صرف کروں جبکہ مجھے یہاں کی زبان بھی نہیں آتی ہے‘‘۔ بابا جی نے کہا ’’ہاں یہ بات تو ہے ناروے کی زبان خاصی مشکل ہے اسے سیکھنے میں اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے البتہ ایک بات ہے آوارہ لڑکے یہاں آ کے بڑی جلدی یہ زبان سیکھ لیتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’بس بابا جی! یہی میرا ’ویک پوائنٹ‘ ہے میں نہ تو لڑکا ہوں اور نہ ہی آوارہ‘‘۔ اس کے بعد ہمارے درمیان کچھ ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اچانک میرے ذہن میں ایک سوال آیا میں نے بابا جی سے پوچھا ’’بابا جی آج اوسلو میں اتنے زیادہ پاکستانی آباد ہیں کہ یہاں اپنے قیام کے تمام دنوںمیں مجھے ایک لمحے کیلئے بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں کسی اجنبی دیار یا ملک میں ہوں۔ آج سے پچاس برس پہلے جب آپ یہاں آئے ہونگے آپ کو تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ اجنبی ملک اجنبی لوگ اوپر سے آپ کو تو یہاں کی زبان بھی نہیں آتی ہو گی‘‘۔ بابے نے پرانے دنوں کو حسرت سے یاد کرتے ہوئے ایک لمبی سانس لی اور کہا ’’پُتر اجنبی لوگ تو تھے اور زبان بھی بہت مشکل تھی مگر میں نے بہت جلد سیکھ لی تھی‘‘۔ بابے نے یہ کہا اور آنکھیں بند کر کے اپنے حسین ماضی میں کہیں دور گم ہو گیا۔ مجھے لگا جیسے وہ اپنے خوبصورت ماضی کو یہ کہہ رہا ہو ’’جانے دے اُستاد ڈبل اے‘‘ مزے کی بات یہ تھی کہ اب بابے کو کھانسی بھی نہیں ہو رہی تھی اور وہ اتنے سکون اور آرام سے یوں بے سُدھ پڑا تھا جیسے کسی نے بابے کا سوئچ نکال کر اس کی ’’وائبریشن‘‘ بند کر دی ہو۔ بابے کے چہرے پر پھیلی شانتی اور سکون سے یوں لگ رہا تھا جیسے بابا اس وقت اپنی بابی سمیت ارد گرد کے ماحول سے مکمل بے نیاز ہو کر اپنے ماضی کے حسین خیالوں کی دنیا میں جہاز سے بھی اونچی فضائوں میں محوِ پرواز ہے۔ میں نے بھی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگانے کے بعد ایک ٹھنڈی آہ بھری اور آنکھیں بند کر کے دل میں سوچا ’’کاش میں بھی اپنی شادی سے پیشتر آج سے بیس پچیس برس پہلے ناروے آیا ہوتا اور ایک آوارہ لڑکا ہوتا‘‘۔
تبصرے بند ہیں.