ہمارے معاشرے کا جوان ستاروں پہ کمند ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں اپنے بوڑھے والدین کو عذاب میں ڈالنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ کوئی وقت تھا جب والدین بچہ اساتذہ کے حوالے کر آتے تھے اور اساتذہ اس خام پتھر کو تراش خراش کر ہیرا نکالتے تھے، پھر سوشل میڈیا کا دور آیا۔ ہمارا بچہ جدید ہو گیا، اساتذہ کا احترام تو قصہِ پارینہ ہوا سو ہوا والدین کی گرفت بھی گئی ہاتھ سے، ’’یار پاپا ایک تو آپ سمجھتے نہیں ہیں، آپ Gen Z سے ہیں نہیں نا‘‘ تو گویا یہ نئی نسل اب والدین سے زیادہ سمجھدار ہے۔ اپنا مستقبل اور کرئیر ان کے قابو میں نہیں ہے اور چلے ہیں سیاسی انقلاب لانے۔
مانا کہ جدید دور کے تقاضے تھوڑے مختلف ہیں، مانا کہ آئی ٹی کے دور میں کچھ دقیانوسی خیالات نہیں چل سکتے لیکن باپ پھر باپ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے چند سال قبل نوجوانوں کو خراب کیا اور اب تو والدین کا بھی بیڑا غرق کر چھوڑا ہے، سارا سارا دن آنکھوں پہ چشمہ ٹکائے، فون کی سکرین کی برائٹ نیس سو پہ رکھ کے سکرین سکرول کرتے رہتے ہیں، اور ہر سنسنی خیز تھمب نیل کو سچ مان کر بیٹھے ہوتے ہیں، ’’فلاں اداکارہ نے کی بے حیائی کی تمام حدیں پار دیکھیے اس ویڈیو میں، فلاں سیاست دان نے ملک لوٹ کر کون کون سی مہنگی کاریں بنائی ہیں، لنک پر کلک کریں‘‘ چلو جب تلک سوشل میڈیا تفریح کے لیے استعمال کر رہے تھے سمجھ آتا تھا اب والدین کینسر کا علاج بھی یو ٹیوب سے نکالی بیٹھے ہوتے ہیں، خیر جدید دور کے والدین پہ لکھنے بیٹھوں تو شاید کاغذ ختم ہو جائے۔ سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کو ناکارہ بنایا وہیں 5th Generation warfare کی ایسی جہنم میں لا جھونکا ہے کہ لوگ عقل و خرد سے بیگانہ ہو چلے ہیں۔ مثلاً آپ کو سوشل میڈیا پہ ایک مخصوص سیاسی شخصیت کا انتہائی بد تمیز کلٹ فالوور نظر آئے گا، جو کمنٹس سیکشن میں جہالت کی تمام حدیں پار کر کے آپ کو صرف اس لیے جاہل کا ٹائٹل دے گا کیونکہ آپ اس کے پلاسٹک کے لیڈر کے حامی نہیں ہیں، اگر آپ اس کے بھونڈے دلائل سے قائل نہیں ہوئے تو وہ آپ کو ننگی گالیاں دے گا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جیسے پانچ سات مزید مشٹنڈے نیچے کمنٹس میں اپنے والدین کی تربیت کے جوہر دکھانے آ جائیں گے۔ اور والدین بیچارے اپنے بچوں کو نتھ ڈالنے کی بجائے ’’فائیو منٹس ہیک‘‘ دیکھنے میں مشغول ہوں گے۔ انصاف انتشاری فیڈریشن نے پہلے ان جوانوں کو اکسایا، ان سے توڑ پھوڑ کرائی، پھر ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرایا اور پھر بیان دیا کہ جلاؤ گھیراؤ کا ہماری سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، نو مئی میں جس کو دھرنا ہے دھر لیں ہمیں چھوڑ دیں، اب جو سیلف پرکلیمڈ چی گویرا ملک بہتر کرنے کے لیے گاڑیوں کے شیشے توڑ رہا تھا وہ تو سڑے جیل میں، بوڑھی ماں اس کی بیٹھ کے بہائے آنسو اور سیاسی لیڈر اسے اپنانے سے کردے انکار تو بھیا مزہ ہی آگیا نا انقلاب کا۔۔۔۔ ون پوائنٹ سمتھنگ CGPA والے جوان ابھی بنگلادیش سے متاثر ہوئے بیٹھے ہیں، دوسری طرف سیاسی جماعت اپنے ذاتی مفاد کے لیے ان نالائقوں کو اکسا رہی ہے، اور یہ ازلی جذباتی قوم مالِ غنیمت کے نام پہ بنگالی وزیرِ اعظم کے فرنیچر، پرندے، انڈر گارمنٹس اٹھا لانے والوں کو آئیڈیل مان کر بیٹھی ہے۔ یہ جانے بنا کہ جو پہلے دھرے گئے ان کی ضمانت ہی کوئی نہیں، یہ سمجھے بنا کہ جو انہیں سوشل میڈیا پر فسطائیت کے خلاف جنگ کی ترغیب دے رہے ہیں وہ خود بس ایک بند کمرے میں بیٹھ کر فیس بک چلاتے رہیں گے، یہ باہر نکل کر کوئی چاند چڑھائیں گے اور پھر نو نمبر چھتر کھائیں گے۔ نوجوان نسل بلاشبہ ملکی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن پہلے اپنے مسائل حل کرنے کے قابل تو ہو جائیں، آپ کا کام ہے تعلیم مکمل کرنا، کوئی ہنر سیکھنا، اپنے قدموں پہ کھڑے ہونا، اپنے خاندانوں کی کفالت کرنا، سٹینڈرڈ آف لائف بہتر کرنا، یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، پاکٹ منی لے کر گزارہ کرنے والے لونڈے ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کی بورڈ پہ ناچ ناچ کر انقلاب لا رہے ہیں۔ ان کے والدین کو جب تک یوٹیوب کے سنسنی خیز تھمب نیلز سے فرصت ملے گی پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ یہاں چند قابلِ غور گزارشات ہیں، اول تو جہاں سٹیٹ کی territorial integrity, اور سکیورٹی پہ بات آئے گی تو یہ جو آپ جلیبی کی طرح سیدھے ہیں آپ کو تیر کی طرح سیدھا کر کے رکھ دیا جائے گا، دوسرا تھوڑی سی فرصت نکال کر invisible hand or generation war 5th کا مطالعہ کر لیں شاید آپ کے دماغ میں لگے جالے اتر جائیں، تیسرا آخری اور سب سے اہم نقطہ آپ کے گوش گزار کر دیتی ہوں افلاطون کی تھیوری کے مطابق پہلے قابل بنیں اس کے بعد فلاسفر کنگ!
افلاطون نے ایک بڑا خوبصورت نظامِ تعلیم کا نظریہ دیا تھا کہ آٹھ سال تک بچے کو والدین کی چھتر چھایا میں ادب موسیقی، آرٹس اینڈ کرافٹس سیکھنا چاہیے، پھر نو سے اٹھارہ سال تک ریاضی، سائنس اور تاریخ کی باقائدہ فارمل تعلیم حاصل کرنی چاہیے، اس کے بعد ہو گا امتحان، اگر تو آپ پاس کر جائیں تو اگلے مرحلے پہ جائیں، ورنہ اپنی صلاحیتوں اور تلخ نہ لگے تو اوقات مطابق نوکری کریں، پھر دو سال آپ کو جمناسٹک اور ملٹری ٹریننگ دی جائے اور پھر سے ہو امتحان، پھر دس سال آپ کو ٹکا کے رگڑا دیا جائے فلکیات اور جیومیٹری کا، پاس کر جائیں تو آگے بڑھیں وگرنہ آپ کا مزاج ہے حفاظت کا سو مورچہ سنبھالیں۔
اس کے بعد اگلے مرحلے میں پانچ سال آپ میں جدلیاتی شعور ٹھونسا جائے ، اور اس کے بعد ہو پندرہ سال کی ٹریننگ۔۔۔ تب جا کے آپ اس قابل ہوتے ہیں کہ آپ ‘‘فلاسفر کنگ’’ کہلا سکیں۔ ادھر لوگ ایک ورلڈ کپ جیت کر حکمران بن بیٹھتے ہیں، اور پیروکار ٹک ٹاک پر انقلاب لے آتے ہیں۔ آخر میں میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کو چاہیے کہ انتشار کے spill over سے نپٹنے کے لیے مؤثر انتظامات کریں، والدین کو چاہیے کہ لنڈے کے انقلابیوں کو خود باتھ روم والی چپل سے سیدھا کر لیں کیونکہ اگر اصلی باپ سیدھا کرنے پہ اتر آئے تو کھال ادھڑ جاتی ہے۔ جوانوں کو چاہیے کہ اندھی تقلید کی بجائے اپنے مستقبل پہ توجہ کریں، تعلیم حاصل کریں، ہنر سیکھیں، خود مختار بنیں، اس کے بعد سیاسی و انقلابی لُچ فرائی کے لیے عمر پڑی ہے۔
تبصرے بند ہیں.