تحریک آزادی میں بلوچستان کا کردار

66

صوبہ بلوچستا ن پاکستان کااہم ترین اور رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔جدوجہد آزادی میں بلوچستان کا کردار پاکستان کے کسی بھی دوسرے خطے سے کم نہیں پاکستان ایک گلدستہ کی مانند ہے اور بلوچستان اس گلدستے کا انتہائی خوبصورت اور خوشبودار پھول ہے۔بلوچستان کے لوگ پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں حصول پاکستان کے لیے بلوچستان کے مشاہیر کی خدمات نے تاریخ پر ان مٹ نقوش ثبت کیے ۔تقسیم ہند کے وقت قلات ،لسبیلہ ،مکران اور خاران کے حکمرانوں نے انگریز حکومت کی طرف سے آزاد رہنے کی پیش کش کو اپنے پائوں سے ٹھوکر ماردی اور قائد اعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان سے الحاق کرلیا۔قائد اعظم جب خان آف قلات سے ملنے گئے تو خان معظم نے انہیں سونے میں تو لا اور اپنی ریاست کے وسائل اور فوج کو قائد اعظم کے استعمال میں دینے کی پیش کش کی ۔خان معظم، میر احمد یار خان،خان آف قلات کو قائد اعظم اور پاکستان سے اتنا لگائو تھا کہ انہوں نے قائد اعظم سے کہا کہ ’’اگر خدانخواستہ پاکستان نہ بن پایاتو آپ بے شک قلات کانام پاکستان رکھ دیجئے گا‘‘افسوس کہ آج بلوچستان کے حوالے سے تاریخی حقائق کو مسخ کرکے نئی نسل کے سامنے پیش کیا جارہا ہے ۔پاکستان 14اگست 1947کو معرض وجود میں آیا لیکن قلات کا الحاق27 مارچ1948کو ہو ا اور اس کے پیچھے ایک مکمل کہا نی ہے۔1940میں جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو قاضی عیسیٰ بلوچستان کی نمائندگی کررہے تھے ۔انہوں نے اس قرارداد کی بھر پور حمایت کی جس نے بالا ٓخر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی ۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کو ملنے والا بلوچستان تین قسم کے علاقوں پر مشتمل تھا ۔سب سے پہلے ،اس علاقے کی ایک لمبی پٹی تھی جو بلوچستان کو افغانستان اور شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبر پختونخوا)سے الگ کرتی تھی ۔یہ دونوں علاقے براہ راست انگریزوں کے زیر انتظام تھے اور اس علاقے کا مقصد بلوچ قبائل کو ان کے پڑوسیوں سے الگ تھلگ کرنا تھا ۔دوسری بات یہ کہ کچھ اضلاع ایسے تھے ،جنہیں خان آف قلات نے لیزپر دیا تھا ۔اس وقت کے چیف کمشنر کے پاس ان لیزپر دیئے گئے اضلاع اور براہ راست اپنے زیر انتظام پٹی کا کنٹرول تھا۔تیسراوہ علاقہ تھا جس پر سرداروں کا کنٹرول تھا ،ان سرداروں کا انگریز حکومت کے ساتھ معاہدہ تھا۔وہ داخلی طور پر آزاد تھے لیکن ان کے بیرونی تعلقات حکومت ہند کے زیر کنٹرول تھے ۔خان آف قلات نے قائد اعظم اور پاکستان سے اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان میں شمولیت کااعلان کردیا۔اس اعلان کے فوراً بعد کانگریس کے وفاداروں اور تنخواہ داردشمنوں نے بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کی سازشیں شروع کردیں ۔الحاق کے بعد 16مئی 1948کو خان قلات کے بھائی عبدالکریم خان نے پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان کے علاقے شوراوک کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا ۔مگر دوسری طرف خان آف قلات میر احمد یار خان نے ایک اشتہار جاری کرکے بلوچ قوم سے اپیل کی کہ ’’عبدالکریم خان‘‘ان کی مرضی ومنشا کے خلاف پاکستان کا باغی ہوگیا ہے اس لیے اس کی کو ئی مدد اور معاونت نہ کی جائے ۔لیکن پرنس عبدالکریم کو بھارت کی مکمل شہ تھی اس لیے وہ افغانستان سے مدد اور اسلحہ لے کربلوچستان میں داخل ہوگیا ۔اس وقت اس کی فوج کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی جس پر افواج پاکستان نے بریگیڈر محمد اکبر خان کی قیادت میںبھارت اور ظاہر شاہ کی اس سازش کو ناکام بناتے ہوئے ان کا حملہ پسپا کردیا۔آج اس صوبے کو لہو لہو کرنے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ پیش پیش ہیں ۔آج شدت پسند بلوچ تحریکیں اور ان کے نام نہاد لیڈر جیسا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ،سمی دین بلوچ اور ماما قدیر اسی سازش کا حصہ ہیں جو بھارت کے ان ایجنٹوں اور ان کے اجداد نے 1947ء میں پنڈت نہرو کی زیر قیادت کام کرنے والی آل انڈیا سٹیٹ پیپلز کانفرس کے تحت کیا تھا ۔تاریخ کے ان اوراق کو بلوچ عوام کے سامنے لانا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ یہ ملک دشمن ایجنٹ دراصل خان آف قلات کے اس لیے خلاف تھے کہ وہ اپنے بھائی عبدالکریم خان جس کی افغانستان کے ظاہر شاہ خاندان سے قریبی رشتہ داری تھی کی پاکستان کے خلاف سازش میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔خان آف قلات کسی صورت اس سازش کا حصہ نہیں بن سکتے تھے کیونکہ وہ ایک محب وطن انسان اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے۔تحریک آزادی پاکستان میں بلوچ نواب حضرات کا بڑا اہم کردار ہے جیسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا آج شدت پسند اور ریاست مخالف عناصر کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈا تاریخ کومسخ کرنے کی ناکام کوشش ہے ۔خان آف قلات نے اپنی خوشی کے ساتھ پاکستان سے الحاق کیا تھا ۔بلوچستان الحاق کے معاملے میںہمیشہ سے منفی پراپیگنڈا کرکے نئی نسل کو گمراہ کیا گیا ہے ۔حالانکہ ریاست پاکستان نے ہمیشہ بلوچستان اور بلوچ قوم سے اسی طرح محبت کی ہے جس طرح بانی پاکستان محمد علی جناح کیا کرتے تھے ۔آپ ؒ نے 4فروری 1948کو سبی دربا میں تقریر کے دوران فرمایا تھا:’’آپ سب کو علم ہے کہ میرا بلوچستان کے ساتھ تعلق ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔جب میں پلٹ کر ان ایام پر نظر ڈالتا ہوں۔جب اس صوبے کے عوام نے میرے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تو مجھے ایک گونہ اطمینان ہوتا ۔اپنے مقاصد کے حصول کیلئے آپ نے پاکستان کے دیگر صوبوں کے بھائیوں کے مقابلے میں کچھ کم حق ادا نہیں کیا۔‘‘ 18ویں آئینی ترمیم سے بلوچستان کو ملنے والے حقوق اور وسائل میں اضافہ کیا گیا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے میگا پروجیکٹس بلوچستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور کرنے کی کوششوں سے وہ ترقیاتی منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں جو اس صوبے کی پسماندگی ،افلاس اور محرومی کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔شرپسند اور ریاست مخالف عناصر بلوچستان کے حوالے سے ریاست پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈاکرکے بلوچ نوجوان نسل کو گمراہ کرکے ریاست کا باغی بنا رہے ہیں ۔ان کا مقصد بلوچستان میں دہشت گردی ،انتہا پسندی اور بدامنی کو فروغ دینا ہے ۔تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ افسوس کہ آج چند لوگ اپنے آبائو اجداد کے وطن پرستی کے راستے کو چھوڑ کر غداروں کے بہکاوے میں آکر ملک دشمنی کی راہوںپر چل پڑے ہیں۔تاہم بلوچستان کے غیور عوام دشمن کی ایسی ناپاک سازش کو ناکام بنانے کا بھر پور عزم رکھتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.