بھاڑ میں جائیں انسانی حقوق !!

56

گزشتہ کئی دہائیوں سے نہتے فلسطینی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ غاصب اسرائیل آزادی کے ان متوالوں پر مسلسل مظالم ڈھا رہا ہے۔ ظلم کے اس کھیل میں امریکہ ، برطانیہ اور دیگر طاقتور ممالک نے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ انسانی حقوق کا نام لیوا سب سے بڑا ادارہ اقوام متحدہ زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔ ایک ارب اسی کروڑ کی آبادی کے حامل 57 مسلمان ممالک جو مسلم امہ کہلاتے ہیں، وہ بھی اس ضمن میں کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او۔ آئی۔ سی ، جس کے منشور میں لکھا ہے کہ یہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک کے حقوق کی حفاظت کرے گی، وہ بھی عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ پچھلی کئی دہائیوں سے فلسطین کے مسلمان اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں، تاہم گزشتہ دس ماہ سے فلسطینیوں پر ٹوٹنے والے مظالم کی انتہا ہو گئی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 ء سے غاصب اسرائیل نے غزہ میں ایک قیامت بپا کر رکھی ہے۔ اسرائیل غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کر رہا ہے۔ یہ مساجد کو بم پھینک کر شہید کر رہا ہے۔ اس نے تعلیمی اداروں پر بم برسائے ہیں۔ ہسپتالوں پر حملے کر کے انہیں ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ دکانیں ، بازار مسمار کر دئیے ہیں۔اسرائیل نے اندھا دھند بمباری کر کے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ کی 2 تہائی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔تقریبا ً4 کروڑ 20 لاکھ ٹن ملبہ جمع ہو گیا ہے۔ اس سارے ملبے کو اٹھاتے 15 سے20 سال لگ سکتے ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فلسطین میں کیا قیامت گزر رہی ہے۔

انسانیت سے عاری اسرائیل نے فلسطین میں انسانی خون کی ندیا ں بہا دی ہیں۔ یہ گھروں، بازاروں، ہسپتالوںمساجد اور سکولوں کیساتھ ساتھ پنا ہ گزینوں کے کیمپوں پر ڈرون حملے کر تا ہے۔ یہ نقل مکانی کرنے والوں کے قافلوں پر بم برسا تا ہے۔ یہ زخمیوں اور لاشوں کو لیجانے والے رضاکاروں کو نشانہ بناتا ہے۔ غزہ میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی اسرائیل کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان دس مہینوں میں اسرائیل کے حملوں سے تقریباً 40 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور معصوم بچوں کی ہے۔ 75 ہزار سے زیادہ شہری زخمی ہیں۔ 160 مقامی اور غیر ملکی صحافی فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا جنون سوار ہے۔ معصوم بچے ، خواتین اور طالب علموں خاص طور پر اس کے نشانے پر ہیں۔کچھ ماہ پہلے عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو فلسطینیوںکی نسل کشی روکنے کا حکم دیا تھا۔ اس نسل کشی میں ملوث اسرائیلیوں سے تحقیقات کی ہدایت بھی کی تھی۔ لیکن اسرائیل اس قدر طاقتور ہے کہ وہ ایسے احکامات کو اپنے جوتے کی نوک پر دھرتا ہے۔ سو قتل و غارت گری کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ انسان کے بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہوتے رہیں ، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ قاتل سے کوئی جواب دہی اور پوچھ گچھ نہ ہو۔ الٹا اسے تھپکی دی جائے۔ یعنی چالیس ہزار لوگوں کا خون اس قدر معمولی بات ہے۔ اطلاعات آتی ہیں کہ اسرائیل کی بمباری کے بعد انسانی اعضاء اور کٹی پھٹی لاشیں متاثرہ علاقے میں بکھر جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے پھیل جاتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا لہو، ان کی لاشیں ، ان کے بچوں کے جسموں کے ٹکڑے دنیا کی نظر میں نہایت ارزاں ہیں۔ ان مغربی دنیا کی منافقت ملاحظہ کریں۔ دنیا کے کسی خطے میں کسی انسان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو طاقت ور ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخنے چلانے لگتی ہیں۔ کسی عورت کیساتھ کوئی واقعہ ہو جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ مختاراں مائی اور ملالہ جیسے واقعات پر یہ ممالک اور ان کی تنظیمیں سالہا سال بلکہ دہائیوں تلک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہمیں کٹہرے میں کھڑا رکھتی ہیں۔ ہمیں شرمندہ بلکہ ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ لیکن غزہ میں اسرائیل کی بمباری سے ہزاروں خواتین اور بچے ہلاک ہو جائیں ، تب کسی کی زبان نہیں ہلتی۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی ان ممالک کا یہی طرہ عمل ہے۔

مغربی ممالک کا دہرا معیار دیکھئے کہ یہ کس طرح تعلیم کی اہمیت پر بھاشن دیتے ہیں۔ غریب ممالک کوسکول سے باہر بچوں کو سکول میں داخل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لیکن اسرائیل جو فلسطینی طالب علموں کے مستقبل کیساتھ کھیل رہا ہے، اس تماشے پر یہ ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان دس مہینوں میں اسرائیلی بمباری سے 10 ہزار طلباء اور 400 اساتذہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں فلسطین کے وزیر تعلیم امجد برحم کا بیان میری نگاہ سے گزرا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ میں 39 ہزار طالب علم ہائی سکول میں داخلے کے امتحان میں نہیں بیٹھ سکے۔ خود اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں 88 فیصد تعلیمی ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔ جبکہ 6 لاکھ25 ہزار طالب علم تعلیم سے محروم ہیں۔ کیا تعلیم کے لئے کام کرنے والے ممالک یا تنظیموں نے اس صورتحال کو روکنے کیلئے اسرائیل سے بات کی؟ یقینا نہیں۔ انسانی حقوق جائیں بھاڑ میں۔

اسرائیل کی ڈھٹائی دیکھیں کہ یہ غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہ ادویات وغیرہ کی بروقت فراہمی میں رخنہ ڈالتا ہے۔ یہ ہسپتالوں کے انکیوبیٹر میں پڑے نومولود بچوں کے لئے گیس کی ترسیل روکتا ہے۔ یہ حاملہ خواتین کو دوران آپریشن بے ہوش کرنے والی دوا یعنی انیستھیزیا کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ یہ عالمی میڈیا کو اپنی شرائط پر غزہ تک رسائی دیتا ہے۔ یہ غزہ میں بجلی، پانی اور ایندھن کی بندش کرتا ہے۔ یہ کسی قانون ، کسی ضابطے کو گھاس نہیں ڈالتا۔ اس سب کے باوجود ، آج بھی امریکہ، برطانیہ اور دیگر طاقت ممالک اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اس کو غیر مشروط امداد اور حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔

دوسری طرف پونے دو ارب آبادی کے حامل 57 مسلمان ممالک ہیں۔ بیشتر ممالک تیل وغیرہ کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان میں سعودی عرب جیسے اچھے خاصے اثر و رسوخ کے حامل ممالک بھی ہیں۔ پاکستان جیسے ایٹمی قوت رکھنے والے ممالک بھی ۔ لیکن یہ سب صم بکم کی تصویر بنے فلسطین میں جاری خونی کھیل دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان ممالک وقتاً فوقتا ًتھوڑی بہت بھاشن بازی یا بیان بازی کرتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ قرار بھی منظور کر لیتے ہیں۔ امدادی سامان بھی بھجوا دیتے ہیں۔ تاہم عملی طور پر مسلمان ممالک کی طرف سے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ ممالک خود تفرقے کا شکار ہیں۔ان کے مابین اسلامی بھائی چارے اور اخوت نامی رشتہ قائم نہیں ہے متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراکش اور بحرین کے اسرائیل کیساتھ باقاعدہ سفارتی روابط قائم ہیں۔ مزید مسلمان ممالک اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ اس صورتحال میں اسرائیل کو کوئی ڈر خوف نہیں ہے۔ وہ فلسطینیوں پر بمباری کرئے، معصوم بچوں کو ذبح کرے ، یہاں تک کہ نہایت دیدہ دلیری سے اسماعیل ہنیہ کو قتل کر ڈالے۔ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.