بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ ہر طرف آئی پی پیز کمپنیوں کی لوٹ مار کا ذکر ہو رہا ہے۔ مہنگائی، روزگار کی عدم دستیابی، معاشی چیلنجز اور سیاسی عدم استحکام کے باعث حکومت دباؤ کا شکار ہے۔ ایسے میں حکومتی بنچوں سے بھی بجلی کی ان نجی کمپنیوں سے متعلق آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔
حالیہ الیکشن میں نگران کابینہ کا حصہ رہنے والے ڈاکٹر گوہر اعجاز نے آئی پی پیز کمپنیوں بارے بڑے خوفناک انکشافات کیے ہیں۔ ان کے مطابق 106 آئی پیز میں سے 48 فیصد کمپنیاں 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں اور یہ بجلی کی اصل قیمت 30 روپے یونٹ کے بجائے 60 روپے ناجائز وصول کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز کمپنیوں سے 30 فیصد بجلی خرید کر 70 فیصد کی ادائیگیاں کی گئیں، یہاں تک کہ جنہوں نے ایک یونٹ بھی نہیں بنایا ان کو بھی کروڑوں میں ادائیگیاں کی گئیں ہیں۔ گوہر اعجاز نے وزیر توانائی اویس لغاری سے ان تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ گوہر اعجاز جب خود نگران حکومت میں تھے اور بقول ان کے آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی لرزہ خیز تفصیلات بارے معلوم ہوا تو اس وقت انہوں نے عوام کے سامنے ان معاہدوں کی تفصیلات کیوں نہ رکھیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق نجی کمپنیوں کے زیادہ تر مالکان ممتاز کاروباری شخصیات اور حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہے۔ آئی پی پیز کے مالکان میں جہانگیر ترین، ندیم بابر، سلیمان شہباز، رزاق داؤد سمیت منشا گروپ، حبیب اللہ گروپ اور سفائر گروپ سرفہرست ہے۔ سال 1994 میں بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں پاور پالیسی کے تحت کئی آئی پی پیز کے ساتھ کنٹریکٹ کیے گئے، جن کے نتیجے میں جون 1996 میں حب پاور پلانٹ سسٹم میں شامل ہوا۔ ہر آنے والی حکومت نے سستی بجلی کیلئے نئے ہائیڈل پاور پراجیکٹس لگانے اور ڈیم بنانے کے بجائے آسان راستہ چنا جس میں کمیشن کی صورت میں لمبا مال بنانے کے بھی خوب مواقع میسر تھے۔ بینظیر بھٹو کے دور سے شروع ہونے والی یہ کہانی نواز شریف، پرویز مشرف، زرداری اور پھر 2013 میں تیسری بار اقتدار میں آنے والے نواز شریف کے عہد تک پھلتی پھولتی رہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ملک میں آئی پی پیز کا جمعہ بازار لگ گیا ہے۔ ان ادوار کے حکمرانوں نے بجلی کے مہنگے ترین معاہدے کیے جس کا خمیازہ آج عوام بھاری بھرکم بلوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ 2013 میں نواز شریف جب اقتدار میں آئے تو ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان کمپنیوں کا آڈٹ کرائے بغیر تقریباً 500 ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی مد میں من پسند آئی پی پیز کمپنیوں کو دے دئیے۔ یہ ادائیگیاں بلز کی فوٹو کاپیوں پر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئیں جو بعد میں ایک بڑے سکینڈل کی شکل میں عوام کے سامنے آئیں۔ اس وقت کے آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے ان ادائیگیوں پر قانونی اعتراضات اٹھائے۔
حکومت نے اس گستاخی پر آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کو سزا کے طور ہمیشہ کیلئے گھر بھیج دیا تھا۔ آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے داموں بجلی کے معاہدوں اور کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ڈالروں میں ادائیگیوں کے باعث آج عوام کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ لوگ بجلی کے بل دینے کیلئے گھریلو اشیا بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں میڈیا نے آئی پی پیز کی لوٹ مار کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا نے حکمرانوں کو بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ غلط شرائط پر کیے گئے یہ معاہدے نہ صرف عوام کی کمر توڑ دینگے بلکہ ان حکمرانوں کے گلے کا پھندا بھی بنیں گے۔ معاہدوں میں اس وقت جان بوجھ کر ایسی شقیں رکھی گئیں تاکہ آنے والی حکومتیں بھی ان معاہدوں سے انحراف نہ کر سکیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے ہوئے حکمران طبقے نے ان کمپنیوں کے مفادات کا خوب تحفظ کیا۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق توانائی سیکٹر کے جن 5 بڑے پاور ہاؤسز کو ٹیکس فری ادائیگیاں کی گئیں ان میں حب پاور کو 260ارب، اینگرو کو 74 ارب، لکی گروپ کو 62 ارب، سفائر کو 34 ارب روپے اور میاں منشا کے پاور ہاؤسز جو کہ صرف 13 فیصد صلاحیت پر چلے، ان کو سالانہ بجلی کی مد میں 25.6 ارب ادائیگی کر کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی۔ المیہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو چند ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہے وہاں عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے مفت میں چند سرمایہ داروں میں بانٹے جا رہے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے 1958 سے لیکر اب تک تقریباً 31 ارب ڈالر کا قرض لیا جبکہ اسی ملک میں صرف منشا گروپ کو کپیسٹی چارجز کی مد میں ایک سال میں 24 ارب روپے ادا کیے گئے۔ ایف پی پی سی کے مطابق آئی پی پیز ماہانہ 150 ارب روپے کیسٹی پیمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر کمپنیوں کے مالکان کا تعلق حکمران طبقہ سے ہے اس لیے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تاہم اس بار بجلی کے بھاری بلوں نے جو حشر کیا ہے اس پر عوام کا صبر بھی جواب دے گیا ہے۔ احتجاج کا ایک سلسلہ ہے جو اب تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جماعت اسلامی نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے دھرنا دے رکھا ہے اور مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں حکومت کو ملک گیر تحریک کا الٹی میٹم بھی دے دیا ہے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف جماعت اسلامی کی تحریک نے زور پکڑ لیا تو اس کا انجام کہیں اقتدار کے خاتمے کی صورت میں سامنے نہ آ جائے۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر ایف بی آر اور پاور سیکٹر سے نجات حاصل نہ کر سکے تو ملک کی ناؤ خدا نخواستہ ڈوب سکتی ہے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی جو یہ مہنگے معاہدے کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اپنے پاؤ گوشت کی خاطر ساری عوام کا گلا گھونٹنے والے ان افراد کو کون قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریگا۔ اقتدار پہ بیٹھے لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ آج کے اس دور میں جب دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور معلومات محض ایک موبائل فون کی دوری پر ہیں عوام ان کھوکھلی باتوں اور نعروں سے بحلنے والے نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے بجلی کے بلوں میں فوری ریلیف دے اور ملک و قوم سے زیادتی کرنیوالے ان سب کرداروں کو ان کے کیے کی سزا دے۔ عوام اس سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔
تبصرے بند ہیں.