جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے سرکار کی طرف سے بار بار یہی سنتے آرہے ہیں ’’ملک انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے عوام قربانی کے لئے تیارہوجائے‘‘۔سو ہم نے ہر دورِ حکومت میں یہی دیکھا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے بیچارے عوام چاہنے نہ چاہنے کے باوجود ملک کو ’’انتہائی مشکل ‘‘ سے نکالنے کے لئے مسلسل قربانی دیتے آرہے ہیں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں اتنی قربانیوں کے باوجودگذشتہ 77برسوںمیں نہ تو یہ ’’انتہائی مشکل‘‘دور ختم ہورہا ہے اور نہ ہی بیچارے بے بس عوام کی مسلسل قربانیوں کا یہ سلسلہ کہیں رکنے میں آرہا ہے۔ ملک کے خاص لوگ ماضی کی طرح اب بھی اپنی پرانی دلچسپیوں اور اقتدار کے کھیل تماشوں میں الجھے ہوئے ہوئے ہیں ۔ مگر ماضی کے برعکس تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ حالت کی چکی میں پستے ملک کے یہ لاکھوں کروڑوں عام لوگ زبردستی کی ان مسلسل قربانیوں سے اب محض پریشان ہی نہیں ہیں بلکہ ناراض بھی ہیں خدانخواستہ جس کا کوئی بھی بھیانک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ موجودہ حالات میںبے روزگاری کے عفریت کا شکار ایسے ہی دو پڑھے لکھے نوجوان دوستوں کے درمیان اپنے مستقبل کے حوالے سے کیا مکالمہ ہورہا ہے آپ بھی سنیے:
’’سنائو دوست! کیا بنا نوکری کیلئے تمہارے انٹرویو کا؟‘‘
’’وہی جو اب تک تمہارے انٹرویو کا بنتا چلا آرہا ہے‘‘
’’یعنی کہ ایک بار پھر بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘
’’ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے‘‘
’’میری جان! ابھی سے ہمت ہار گئے ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘
’’یار گذشتہ دو برس سے تمہارے سامنے نوکری کے لئے دھکے کھا رہا ہوں اور تم کہہ رہے ہویہ ابھی ہے‘‘
’’ہاں دوست واقعی! یہ بڑی زیادتی ہے،اتنا پڑھنے لکھنے کے باوجود تمہارے جیسے بندے کو نوکری نہ ملنا انتہائی افسوس ناک ہے‘‘
’’ مگر تمہارے ساتھ بھی تو یہی المیہ ہے،تم نے بھی تو تعلیم کے نام پر چوبیس پچیس برس ضائع کیے ہیں‘‘
’’ہاں یار! اب تو یہی لگتا ہے کہ تعلیم کے نام پر ہم نے یہ سال اور اس کے ساتھ ماں باپ کی خون پسینے کی کمائی بھی برباد کی ہے ‘‘
’’ مگر نوکری تلاش کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے‘‘
’’ ایک راستہ ہے تو سہی میرے پاس‘‘
’’وہ کیا ہے؟‘‘
’’کسی امیر ملک میں جاکر محنت مزدوری ‘‘
’’لیکن ملک سے باہر جائیں گے کیسے ملک سے باہر جانے کے لئے بھی تو پیسے لگتے ہیں پھوٹی کوڑی تک تو ہے نہیں میرے تمہارے پاس‘‘
’’اس کا بھی حل ہے میرے پاس‘‘
’’وہ کیا ہے ؟‘‘
’’سیاست‘‘
’’ہمارے یہاں روپیہ پیسہ کمانے کا سیاست سے تعلق ہے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ملک سے باہر جانے کا سیاست سے کیا تعلق ہے تمہاری یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘
’’ میرے بھولے بادشاہ !وہ اس طرح کہ کیوں نہ ہم کوئی سیاسی پارٹی جوائن کر لیں اس کے بعدایک دو برس پارٹی کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کریں گے اور پھرکسی مناسب موقع پر ہم اپنا الگ سیاسی دھڑا بنالیں گے ۔جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے اس کے بعد اس نئے سیاسی دھڑے یا پارٹی کی سربراہی ہمارے پاس ہوگی‘‘
’’تمہارا مطلب ہے پارٹی کے دیگر ممبران اور کارکنان پارٹی قائد کو چھوڑ کر ہمارا ساتھ دیں گے؟‘‘
’’ بلا سے ساتھ نہ دیں کم از کم ہم دو آدمی تو اپنی پارٹی میں ہوں گے ہی ویسے بھی سیاست کے میدان میں کامیابی کے لئے کارکنوں یا ووٹوں کی نہیں ’’رابطوں ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے‘‘
’’ کن رابطوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟‘‘
’’یار اُن رابطوں کی جس کی بنیاد پر شیخ رشید اتنا عرصہ وفاقی وزیر بنتے رہے ہیں‘‘
’’مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی تم کن رابطوں کی بات کر رہے ہو‘‘
’’میرے بھولے بادشاہ میں ’’پہنچی ہوئی سرکار‘‘ سے رابطوں کی بات کر رہا ہوں‘‘
’’یہ کون سی سرکار ہے؟‘‘
’’ یہ اصلی اور وڈی سرکار ہیں جس پر مہربان ہوجائیں اس کی نسلیں سنوار دیتے ہیں، بس یہ دعا کرو کہ وقت آنے پر ’’پہنچی ہوئی سرکار‘‘ سے ہما رے رابطے ہوجائیں ‘‘
’’ اچھا ! اس سے کیا ہوگا؟‘‘
’’ پہنچی ہوئی سرکار ہمیں ایسا تعویذ دے گی جس کے بعد سمجھو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے اور پھر ملک کی کوئی ایک آدھ اہم سیٹ تو ہماری پکی‘‘
’’ تمہارے خیال میں یہ سب کچھ اتنا آسان ہے؟‘‘
’’ہمارے لئے نہ سہی لیکن پہنچی ہوئی سرکار کیلئے اتنا ہی آسان ہے۔وہ جس پر مہربان ہوجائے اسے چٹکیوں میں فرش سے عرش تک پہنچا دیتے ہیں ‘‘
’’مگر کاروبارِ مملکت چلانے کی ہمیں کچھ سوجھ بوجھ تو ہے نہیں پھرہم اچانک ملنے والی اتنی بڑی ذمہ داری کیسے نبھاپائیں گے؟‘‘
’’یار یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے اسے بھی پہنچی ہوئی سرکار دیکھے گی ،یوں بھی آج تک ہمارے ہاں جو لوگ مملکت کا کاروبار چلاتے رہے ہیں انہیں اس حوالے سے کچھ سمجھ بوجھ تھی؟ اور ویسے بھی ہم نے کونسا ساری عمر یہی نوکری کرنی ہے‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہی کہ ملک کے ایک اہم آدمی کی حیثیت سے ہمیں جب بھی کسی بڑے ملک مثلاً امریکہ وغیرہ کے دورے کا موقع ملے گا ہم وہاں فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح ’’سلپ‘‘ یعنی غائب ہو جائیں گے‘‘
’’ وہ کیوں؟‘‘
’’ تاکہ وہاںعزت سے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے چار پیسے کما سکیں اور اچانک نوکری جانے کا بھی ڈر نہ ہو یعنی ایک دم پکی نوکری ہو‘‘
’’ یاراول تو مجھے تمہارا یہ شیخ چلی جیسا خیالی منصوبہ سن کر ہنسی آرہی ہے لیکن فرض کرو پہنچی ہوئی سرکار کے تعویذ سے ہمیں ملک میں کوئی بڑی نوکری مل جاتی ہے تو پھر ایسی شان و شوکت والی نوکری چھوڑ کر ہمیں دیارِ غیر میں دھکے کھانے کی ضرورت کیا ہے؟‘‘
’’میرے دوست ضرورت ہے تو میں تمہیں کہہ رہا ہوں ناں،دراصل میں تمہیں پہنچی ہوئی سرکار کے حوالے سے ایک اہم بات تو بتانا بھول ہی گیا تھا وہ اہم بات یہ ہے کہ پہنچی ہوئی سرکار کے تعویذ سے بندے کو بڑی سے بڑی جو بھی نوکری ملتی ہے وہ کچی یعنی عارضی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ جب تک پہنچی ہوئی سرکار اپنے مرید سے خوش رہتی ہے اس کے تعویذ کا اثر رہتا ہے اور نوکری چلتی رہتی ہے ۔جونہی اس تعویذ کا اثر ختم ہوتا ہے ناصرف اس کی نوکری چلی جاتی ہے بلک اُس کیلئے اُس وقت تک کڑی آزمائشوں کا دور شروع ہوجاتا ہے جب تک وہ پہنچی ہوئی سرکار سے اپنے لئے نیا تعویذ حاصل نہیں کر لیتا ‘‘۔
تبصرے بند ہیں.