ارضِ فلسطین تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے یکساں محترم ہے لیکن مسلمانوں کے لیے سر زمینِ فلسطین اور مسجد الا قصیٰ محض جذباتی نہیں بلکہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس مسجد کے قرب و جوار میں ہی حضرت ابراہیم ؑ اور بنی اسرائیل کے انبیاء کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں ۔تاریخِ اسلامی میں فلسطینی سرزمین ایک طویل داستان اور مقام رکھتی ہے ۔ بیت الاقدس گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی استعمار اور صیہونی نا جائز تعاون کے نتیجے میں ظلم و جبر ، قتل و غارت اور حقوق انسانی کی پامالی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ غزہ کی مسلم آبادی ناجائز طور پر قائم کردہ صیہونی اسرائیلی ریاست کے فضائی ، بری اور بحری تینوں راستوں سے بمباری کا ہدف بنی ہوئی ہے ۔ہزار وں معصوم بچے ، خواتین ، بزرگ یہاں تک کہ مریض بھی اسرائیلی بمباری اور قتل و غارت سے محفوظ نہیں ہیں ۔ ہر روز شہادت کے درجے پر فائز ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ مسلم دنیا اب بھی صرف حمایتی بیانوں تک محدود ہے ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :۔’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے‘۔گزشتہ ستر دہائیوں سے یہودی فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و بر بریت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔اپنی ہی قوم کے علماء و صلحاء کا خون بہانا ان کا صدیوں سے آبائی پیشہ رہا ہے ۔نجانے کتنے معصوم لوگ اب تک ان کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی حکومت ظالم ،جابر و غاصب ہے جبکہ فلسطین کے مسلمان نہتے اور مظلوم ہیں ۔اپنی نا جائز ریاست کے قیام اور اس کی توسیع کے لیے یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کے گھر مسمار کیے ان کی زمین سے انہیں بے دخل کیا ، مگر آفرین ہے نہتے فلسطینی مسلمان پھر بھی اپنی سر زمین سے دستبردار ہونے کو کسی صورت آمادہ نہیں اور بیت المقدس کی حفاظت کے لیے اپنی اور اپنے معصوم بچوں کی جانیں قربان کیے جا رہے ہیں، آنے والا ہر نیا سورج ان کی زندگیوں میں خوشیوں کے بجائے مایوسی ،افسردگی اور پژمردگی کی نوید لے کر آتا ہے اس کے باوجود ان کے پایہ استقامت میں ذرا برابر بھی لغزش نہیں آئی ۔یہ مسئلہ فقط عربوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے ۔تیس لاکھ سے زائد مقامی باشندوں کو حقوقِ انسانی سے محروم کرنے ، خواتین ، بچوں ،بزرگوں اور جوانوں کو قتل و غارت گردی کا نشانہ بنانے کی ذمہ دار صیہونی دہشت گردی ہے۔
روئے زمین پر فلسطین میں رہنے والوں نے نجانے ظلم وستم کی کتنی داستانیں رقم کی ہیں ، ہر روز ان پر آتش و آہن کا نیا کھیل کھیلا جاتا ہے ۔اسرائیل نے قتل و غارت کا ہر حربہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر استعمال کیا ، گویا آلام و مصائب کی نا ختم ہونے والی شبِ ظلمت فلسطین کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگ دراصل بھیانک خونریزی اور ہمہ گیر تباہی کا نام ہے ۔کراہ ارض کے کسی بھی حصے میں ہونے والی جنگ سے ہزاروں قیمتی جانوں کا زیاں لازمی ہے ، اس دوران ہونے والے اموال و املاک کی بے حساب بربادی سے کسی قسم کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ فلسطینیوں کا خون گزشتہ ستر سال سے پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ہسپتالوں پرہونے والی بمباری کے نتیجے میں وہاں زیر علاج مریضوں تک کو لقمہ اجل بنا دیا گیا مگر انسان دوست مغربی ممالک اور میڈیا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے اس کی آواز بن گیا ۔یہود ہزاروں برسوںسے مسلسل مغلوبیت اور عذاب کا شکار ہیں ، اس وقت بھی وہ مغربی طاقتوں کے بل بوتے پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں ۔ حق اور سچ کا ساتھ دینا ہر مذہب کے ماننے والوں پر لازم و ملزوم ہے ۔ چند روز قبل ہی ایرانی صدر مسعود پزشیکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے فلسطین کی سب سے بڑی مزاحمتی تنظیم کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کر دیئے گئے۔ جس عمارت میں حماس کے سیاسی سربراہ موجود تھے اسے اسراعیل کے گائیڈڈ میزائلوں نے نشانہ بنایا۔حماس ایک تنظیم ہے اور اس ایک تنظیم نے اسرائیل کے دانت کھٹے کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ، امریکہ انگشت بدندان ہے ، یورپ محو حیرت ہے کہ ایک تنظیم نے دنیا کے طاقتوروں کی نیندیں تک اڑا کر رکھ دی ہیں ۔ حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم کا نام ہے جس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیئے ، جس کے آگے دنیا کا جدید ترین اسلحہ ہیچ ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں معصوم افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کی کثرت ہے۔ اسرائیل نے پورا غزہ کھنڈر بنا دیا لیکن اس کے باوجود وہ حماس کی مذاحمت کو زیر کرنے میں ناکام رہا ۔ حماس و ہ تنظیم ہے کہ جس کے رہنمائوں نے ہمیشہ قربانی دی ہے تو ان کا ہر مجاہد شہادت کے جذبے سے سرشار ہے ۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا وفد تین (طرح کے لوگ )ہیں ، مجاہد ،حاجی اور عمرہ کرنے والا۔جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺسے کسی نے پوچھا کہ : کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ رب العزت اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا ۔ کہا گیا اس کے بعد کون سا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ آج جب نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی انسانیت سوز بمباری جاری ہے تو سرزمینِ فلسطین انسانیت کو مددکے لیے پکار رہی ہے، آج فلسطین کے ہزاروں بے بس اور مظلوم افراد امتِ مسلمہ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ آج وہی مقدس ارضِ فلسطین پکار پکار کر پوچھتی ہے کہ آخر کب تک فلسطین کی مقدس سر زمیں خون آلود ہوتی رہے گی ؟کب تک فلسطینی مائیں ، بہنیں خوار ہوتی رہیں گی؟ اسماعیل ہنیہ نے تو اپنا مقصدِ حیات پورا کر دیا ، لیکن وہ ساری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں اور ان کی افواج کے سامنے کئی سوالات چھوڑ گئے ہیں ۔ سب سے اہم سوال تو اب بھی یہی ہے کہ آخر کب تک نہتے فلسطینیوں کے جنازے اٹھائے جاتے رہیں گے ؟ آخر فلسطین کی آزادی کی صبح کب طلوع ہو گی ؟
Next Post
تبصرے بند ہیں.