عالمِ بزرخ کیا ہے……؟ ماریہ بی کی آواز……

39

 

کیا ہم عذاب الٰہی کا شکار ہونے جا رہے ہیں؟ روشنی کے خلاف جہاد کرنا یا روشنی کے سفر پر چلنے والوں سے لالٹین چھین لینے کا مطلب ہوتا ہے اندھیروں سے دوستی یا اندھیروں کے حق میں دلائل دیتے ہوئے روشنی کو خیر سے سختی سے دبانے کی کوشش کرنا۔ حکمران وہی مسلط ہوتے ہیں جو ہمارے اعمال کی سزا ہوتے ہیں۔ 2013ء سے جو گھمبیر خوفناک سازشیں ہوئیں اور پھر اک گروہ کی صورت میں یہ سازش اور سازشی عناصر اسلام آباد دھرنے کی صورت میں قابض ہوئے اور معاشرہ اک خوفناک نظریئے کے تابع ہوتا نظر آیا۔ سازش میں جہاں سوشل میڈیا، ہمارے دیگر سماجی گروپس اک سیاسی پارٹی کے گرد جمع ہوئے اور اس کو مذہبی Touch (آنکھوں میں دھول جھونکنے اور مذہبی لوگوں کے دلوں میں نرمی پیدا کرنے کے لیے) اک سابقہ سیاسی جماعت کے مذہبی راہنما کو نمایاں مقام اور بہت سے نوجوان مذہبی طلبہ طالبات جو ان کے تعلیمی اداروں سے وابستہ (گروپ) تھے ”دھرنے“ میں چوہدراہٹ لے کر اس گروہ کے ساتھ اپنا کردار ادا کرکے کینیڈا شفٹ ہوا اور مذہب سے دوری، فوج سے نفرت، Sex Free ماحول جیسے عذاب دے کر پاکستان کا بنیادی دو قومی نظریہ اور اک سر اٹھا کر دنیا میں چلنے والی اسلامی ریاست جیسے اہم نکتے پس پشت ڈالتے ہوئے اک نیا معاشرتی زاویہ نگاہ دے کر چلتا بنا۔ پاکستانی عوام اور معتبر قومی ادارے (جن میں ان کے ایجنٹ جمع ہو چکے تھے) اک خوف کا شکار ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ نئی نسل کہیں اس دلدل میں پھنسے پھنستے بربادی کی آخری حدوں کو نا چھولے۔
مقتدر حلقوں نے اپنا کردار ادا کرنے کی ٹھانی اور عالمی سطح کی دھمکیوں، پریشرز، کالا دھن لئے یہ گروہ پوری طرح وار کرنے، دباؤ ڈالنے اور دیگر منفی ہتھکنڈوں سے محبت وطن عناصر سے ٹکرانے کا عندیہ دینے لگے۔ یہی نہیں نظریاتی وار ہونے لگے، تعلیمی اداروں، سیاسی پارٹیوں، سوشل میڈیا، ریڈیو، ٹی وی، فلم سے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش پوری شدومد کے ساتھ جاری رہیں۔
آج میں نے سوشل میڈیا پر اک معزز خاتون کی توانا آواز سنی، تو خوشی ہوئی، اک مثبت صدا سنائی دی۔ اک ایسے ڈرامے (نیٹ سیریز) کے حوالے سے جس میں ”برزخ“ کے نام سے اک گھسا پٹا موضوع ایک نہایت منفی انداز میں دہرایا گیا جو بلاشبہ نئی نسل کی بے راہ روی کا غماز ہے اور پچھلے چار سال سے اس سلسلے میں معاشرتی حلقوں میں بحث جاری ہے اور سنا ہے قانون سازی بھی ہو چکی ہے اس کے پیچھے وہی لابی ہے جو ہماری نظریاتی اساس کی دشمن ہے۔
کچھ عرصہ سے وہ آوازیں جو قوموں کی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا کرتی ہیں آہستہ آہستہ دبتی چلی جا رہی ہیں، مایوسی کا شکار یا پھر انہیں دبایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ کہیں نا کہیں چنگاری پھوٹتی رہتی ہے کہ زندگی کے آثار تو دکھائی دیتے ہیں کہ پروردگار نے موت کے ساتھ ساتھ زندگی بھی تو عطاء کی ہے۔ محترمہ ماریہ بی صاحبہ جو بنیادی طور پر ایک پڑھے لکھے باپ کی بیٹی ہیں اور گارمنٹس انڈسٹری سے وابستہ ہیں، انہوں نے ان منفی معاملات پر آواز بلند کرنا شروع کی، جو لابی ایسے ڈرامے تیار کرواتی ہے اور بڑے فنکاروں کو ان میں استعمال کرتی ہے اور پاکستان کا ایک سیکولر امیج بنانے کی کوشش میں ہے۔ اس کے آگے بند بھی باندھنے ہیں اور قدرتی طور پر ایسے منفی لوگوں کا انتظام بھی ہو جاتا ہے کہ خواتین کے حقوق پر بات کرنے کا یہ بھی ایک انداز ہے۔ جہاں ہم جنس پرستی پر بات ہوتی ہے، اس کو معاشرے میں پھلتا پھولتا دکھایا جا رہا ہے۔ وہاں پر ماریہ بی جیسی ہستیاں بھی تو ہیں جو اس منفی فعل اور قرآن پاک اور ہمارے پیارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں، بتاتی ہیں اور معاشرے پر اس کے خوفناک اثرات کے حوالے سے بات کرتی ہیں۔ نئی نسل کو جگاتی ہیں اور پاکستان دشمن قوتوں کی سازشوں کا تذکرہ بھی کرتی ہیں اور اس کے آگے بند باندھنے کی بات اور تیاری کا طریقہ کار بھی بتاتی ہیں کہ بلاشبہ یہ اک تباہی کا راستہ ہے اور تمہارا دشمن ہمارا اندرونی دشمنی اور عالمی سطح پر اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش کرنے والے ہماری نئی نسل کو ہر حال میں ان منفی سرگرمیوں میں ملوث کرنے کے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں، دولت کے انبار ہیں جو وہ اس قومی تباہی کے لئے خرچ کر رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے ہیں، جہاں مالکان اور ٹیچر ملوث ہیں، وہ جو اس کام کو برا سمجھتے ہیں وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں مگر ہمیں ہر حال میں سب کو اس گندگی کے آگے بند باندھنا ہے۔ احمد سہیل نصراللہ ہمارے پیارے دوست اور اک ادارے کے انتظامی امور کے انچارج ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے کہا کہ کل خلیل الرحمن قمر ہمارے ادارے میں آ رہے ہیں جہاں وہ طلبہ و طالبات کے سوالات کے جوابات دیں گے اور اپنے مشاہدات سے حاضرین کو آگاہ کریں گے۔ دعوت خاص تھی اور خلیل الرحمن قمر میرا بچپن کا دوست تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ خلیل الرحمن قمر بغل گیر ہوا ”اوہ…… میرا پیارا یار“۔ ”میرا بچپن کا دوست“ سب کو اچھا لگا کہ اس نے اپنے بچپن کے دوست کو پہچانا…… اس دوران میرے کان میں احمد سہیل نصراللہ نے کہا…… ”حافظ صاحب آپ خلیل الرحمن قمر سے کہیں کہ وہ اسٹیج پر سگریٹ نا پئیں۔“ میں نے کہا تو قہقہہ لگایا…… اور بولے ”میرے یار کا حکم ہے میرا کیا مجال“۔ میں بھی اسٹیج پر بیٹھا رہا۔ قمر نے واقعہ سگریٹ کے کش نہ لگائے اور ادب سے بیٹھا رہا۔ مجھے گھر سے فون آ گیا۔ میں محفل جاری تھی کہ اٹھ کر جانا پڑا۔ اگلے دن مجھے احباب نے بتایا کہ خلیل نے آپ کے جانے تک سگریٹ نوشی نہیں کی جونہی آپ گئے اس نے سگریٹ سلگا لیا۔ ”جاہل ہے اوقات بھول گیا ہے“ میں نے جواب دیا اور سب دوست ہنسنے لگے۔!

تبصرے بند ہیں.