اسماعیل ہنیہ بھی شہید

92

رَبِ جباروقہار نے دینِ مبیں کے پیروکاروں کو طاغوتی طاقتوں کے خلاف ”اپنے گھوڑے تیار رکھنے“ کاحکم دیا ہے۔ فرقانِ حمید میں ارشاد ہوا ”نکلو تم ہلکے ہویا بوجھل اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں لڑو“ (سورۃ التوبہ آیت 41)۔ اِس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ جہاد کااطلاق دشمنوں سے لڑنے پربھی ہوتاہے جس کا مقصد اُنہیں روکنا اور اپنی جان ومال کے علاوہ سرزمین کا دفاع کرنابھی ہوتا ہے۔ فلسطینی 1948ء سے مصروفِ جہاد ہیں کیونکہ طاغوتی طاقتوں نے اِسی سَن میں فلسطین کاایک بڑا حصہ کاٹ کر اسرائیل کے حوالے کردیا جسے عالمِ اسلام نے کبھی قبول نہیں کیا۔ دُکھ مگر یہ کہ دنیاکے 2ارب مسلمان کبھی کھُل کرطاغوتی طاقتوں کے سامنے سینہ سَپر نہیں ہوئے۔ اُدھر امریکہ اور یورپ، اسرائیل کے پُشت پناہ اور جب بھی اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے حق میں کوئی قرارداد پیش کی گئی تو امریکہ نے اُسے ویٹو کردیا۔
غزہ گزشتہ 8ماہ سے حالتِ جنگ میں ہے۔ اِس دوران دہشت گرد اسرائیل 40ہزار سے زائد غزہ کے مکینوں کوشہید کرچکا جس میں زیادہ تعداد عورتوں اوربچوں کی ہے۔ اسرائیل نے عالمی ضوابط کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے سویلین آبادی پرتاک تاک کر نشانے لگائے۔ اُس نے کوئی سکول، کوئی ہسپتال اور پناہ گزینوں کاکوئی کیمپ نہیں چھوڑا لیکن عالمی ضمیر پھربھی خاموش۔ اب ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں بطور مہمان شرکت کرنے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کوبھی نشانہ بناڈالا۔ اسماعیل ہنیہ اپنے 3بیٹوں سمیت رشتہ داروں کے 60افراد کو اسرائیلی بمباری سے شہید کرواچکے تھے۔ اب وہ خودبھی ایران میں فجرکے وقت پُراسرار طور پر شہید کردیئے گئے۔ ایران نے تاحال اُن کی شہادت کے متعلق تفصیلات تو جاری نہیں کیں البتہ یکم مارچ کو نیویارک ٹائمز نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیاہے کہ اُن کی موت اُن کے کمرے کے اندر ہونے والے دھماکے کے باعث ہوئی جہاں 2ماہ پہلے ہی دھماکہ خیز مواد چھپادیا گیاتھا۔ اسماعیل ہنیہ جب بھی ایران تشریف لاتے تووہ شمالی تہران کے اُسی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرتے جس کا کنٹرول ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے پاس تھا۔ شنیدہے کہ یہ دھماکہ خیز مواد گیسٹ ہاؤس کے تین کمروں میں چھپایا گیاتھا۔ نیویارک ٹائمزکے مطابق ایران کے 5 عہدیداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ جونہی حماس کے رَہنماء کے کمرے میں موجودگی کی تصدیق ہوئی تو ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ خیزمواد اُڑادیا گیا جس سے حماس رَہنماء اور اُن کا گارڈ شہید ہوگیا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے اسماعیل ہنیہ کوشہید کیا۔ ایرانی ایجنٹوں نے مہمان خانے کے 3کمروں میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا۔ ایرانی حکام کے پاس اُن ایجنٹوں کے کمروں میں انتہائی تیزی سے آنے جانے کی ویڈیو موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر رئیسی کے جنازے میں شرکت کے موقعے پراسماعیل ہنیہ کو قتل کیا جانا تھا لیکن اِس سے کئی عالمی رَہنماؤں کی جانوں کوبھی خطرہ تھا اِس لیے یہ منصوبہ ترک کردیا گیا۔ بہرحال اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی وجوہات کچھ بھی ہوں یہ ایران کی خفیہ ایجنسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نہ صرف ایران کے لیے شرمندگی کاباعث بنی بلکہ اُس کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی صلاحیتوں پربھی سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایسے وقت میں ہوئی جب لبنان کی حزب اللہ کے سب سے سینئر فوجی کمانڈر کی شہادت کے اسرائیلی دعوے کوچند گھنٹے ہی گزرے تھے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے اسرائیل غزہ تنازع میں جنگ بندی اور امن مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاژ کر ڈالا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اہم ثالث قطرکے وزیرِاعظم شیخ محمدبِن عبدالرحمٰن التانی نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے مذاکرات کی سنجیدگی سوالیہ نشان بن گئی کیونکہ ہنیہ مذاکرات کے اہم رُکن تھے۔ ہنیہ کی شہادت پرایران کا رَدِعمل بھی بہت شدید کیونکہ یہ اسرائیل کی طرف سے کی گئی فوجی کارروائی تھا۔ ایران کے رَہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنائی نے اِس حملے پر اسرائیل کوسخت سبق سکھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ چونکہ ہنیہ کاقتل ایران میں ہواہے اِس لیے وہ اُن کے خون کابدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اُنہوں نے اِس قتل پر اسرائیل پر براہِ راست حملے کا حکم دیا ہے۔ ایرانی وزیرِخارجہ نے بھی کہاکہ ہنیہ کے قتل کا بہرصورت بدلہ لیاجائے گا۔
اُدھر امریکہ نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے لاتعلقی کا اظہار توکر دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ وہ بہرصورت اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ امریکی محکمہئ دفاع نے کہاکہ اسرائیل پرکسی بھی ایرانی حملے کے خطرے کے پیشِ نظر مشرقِ وسطیٰ میں اضافی بحری جہاز اور لڑاکا طیارے تعینات کررہا ہے اور وہ اسرائیل کے دفاع کے لیے پُرعزم ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایران اِس اسرائیلی حملے کاجواب کیسے دے گا۔ اِس سے پہلے شام میں ایران کے سفارت خانے پر اسرائیلی فضائی حملے میں ایران کے ایک اعلیٰ کمانڈر مارے گئے تھے۔ اِس حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں ڈرون اور راکٹ فائر کیے اور اسرائیل نے جوابی کارروائی میں ایران کے شہر اصفہان کے فوجی اڈے کونشانہ بنایا۔ اب سوال یہ ہے کہ کہیں اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک ہمہ گیر جنگ کاباعث تو نہیں بنے گی؟۔ اسرائیل کی ہوس گیری کی مستقل پالیسی کے سامنے اقوامِ متحدہ بے بَس ہے کیونکہ اسرائیل عالمی قراردادوں اور تجاویز کوجوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی یہ ساری دہشت گردی امریکہ کی شہ پرہے جو کسی وقت بھی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر عالمِ اسلام کا رَدِعمل مذمتی بیانات تک محدود۔
رَبِ لم یزل کابھی یہ فرمان کہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلی جاتی جب تک کہ اُسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ سورۃ الرعد آیت 11میں فرما دیا گیا ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کونہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹَل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی ومددگار ہوسکتا ہے“۔ عالمِ اسلام کے رَہنماؤں کو یہ سوچنا ہوگا کہ آخر تائید ونصرتِ ربّی اُن کے ساتھ کیوں نہیں۔ تاریخِ عالم گواہ کہ جب عالمِ اسلام متحد تھا تو اُن کی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن آج وہ گلی گلی میں رُسوا، کوئی اُن کا حامی نہ مددگار اور وہ طاغوتی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریز۔ اِس حالتِ ضعیفی میں بھی اُن کی کوئی بچت نہیں۔ طاغوت یکے بعد دیگرے اُنہیں نشانِ عبرت بناتا چلا جارہا ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، یمن اور شام کے علاوہ کشمیر اور فلسطین میں تباہیوں کی داستانیں اُن کے سامنے۔ پھر بھی وہ متحد ہوکر رَبِ لم یزل کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے گریزاں کیوں۔

تبصرے بند ہیں.