پرنسس آٹھ سال کی ایک بچی ہے جو لاہور کے ایک سکول میں تیسری جماعت میں پڑھتی ہے۔ اْس کا نام تو کچھ اَور ہے لیکن میں اْسے پرنسس کہتا ہوں اَور وہ اِس پر بہت خوش ہے۔ اْس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں بہت زیادہ بولتی ہیں۔ وہ اْنہیں گھما گھما کر باتیں کرتی ہے اَور ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا اْس کے لیے بے حد مشکل ہے۔
وہ بیٹھ کر پانی پیتی ہے کیونکہ اْسے اْس کی ٹیچر نے یہ بتایا ہے۔ وہ پانی پینے سے پہلے بسم اللہ بھی پڑھتی ہے۔ وہ جھوٹ نہیں بولتی۔ اْسے وہ بچے بہت برے لگتے ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں اَور لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اْس کے نزدِیک اْس کی ٹیچر کا کہا پتھر پر لکیر ہے۔ وہ اْس پر بغیر سوچے، بنا کوئی بحث کیے عمل کرتی ہے۔ جب میں پہلی بار اْسے ملا تو وہ میرے دفتر میں آئی تھی۔ میں نے اْسے پوچھا کہ چپس کھاؤ گی تو اْس نے کہا کہ وہ کھاکر آئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ بسکٹ کھالو تو اْس نے کہا کہ وہ کھاکر آئی ہے۔ پھر میں نے کہا کہ جوس منگوادیتا ہوں تو بھی اْس نے وہی بات کہی۔ جب تک وہ آپ کو جانے گی نہیں وہ آپ سے کچھ لے کر نہیں کھائے گی۔ وہ بھوکی بھی ہوگی تو بھی اجنبی کی چیز کی طرف آنکھ اْٹھا کرنہیں دیکھے گی۔ وہ تقریباً پندرہ منٹ لیتی ہے کسی شخص کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کے لیے کہ اِس سے دوبارہ ملنا ہے یانہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ کرلے کہ اِس شخص سے دوبارہ ملنے کی ضرورت نہیں ہے تو اْس کا رویہ اْس کے ساتھ اَیسا ہوجاتا ہے جیسے وہ شخص دْنیا میں موجود ہی نہیں ہے۔ وہ اگر سامنے بھی ہوگا تو بھی پرنسس اْس کی جانب آنکھ اْٹھا کر نہیں دیکھے گی۔
وہ زندگی میں بہت آگے جانا چاہتی ہے۔ وہ شیف بننا چاہتی ہے۔ وہ اَپنا ایک سیلون بھی کھولنا چاہتی ہے۔ اْسے نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے بنانے کا بھی شوق ہے۔ کھیل میں بھی وہ بہت ترقی کرنا چاہتی ہے۔ اْس نے بڑے ہوکر آرٹسٹ بھی بننا ہے اَور اَپنی پینٹنگز کی نمائشیں بھی کرنی ہیں۔وہ فلموں کی ڈائرکٹر بھی بننا چاہتی ہے۔ اِن سارے کاموں کے لیے وہ بہت محنت کرنا چاہتی ہے۔ چنانچہ اِن تمام چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اَور اْن کے بارے میں پڑھنا اْسے بہت پسند ہے۔ اْس کا خیال ہے کہ جو بھی کرنا ہو اْس کے لیے بہت محنت کرنی چاہیے تاکہ وہ کام سیکھا جاسکے۔شارٹ کٹ کا لفظ اْس کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔ وہ اِس کے بارے میں جانتی ہی نہیں ہے۔ نقل کرنا، دْوسروں کی چیزیں اْنہیں بتائے بغیر لے لینا اْسے سخت ناپسند ہیں۔جو بچے یہ کام کرتے ہیں اْن سے وہ دوستی نہیں کرتی۔
میں سوچتا ہوں کہ کہیں یہ بچی غلط ملک میں تو پیدا نہیں ہوگئی۔ محنت کرنا، اْونچے عزائم رکھنا، خواب دیکھنا، سچ بولنا وغیرہ وہ خصوصیات ہیں جن کو ہم ایک عرصہ ہوا ترک کرچکے ہیں۔ ہمارے نزدیک بلند عزائم یہ ہیں کہ ہمارے پاس بہت ساری دولت ہو اَور لوگ آتے جاتے ہمیں سلام کریں، ہم سے ڈریں۔ اِس کے علاوہ ہمارا کوئی اَور عزم نہیں ہے۔ علم حاصل کرنا، تربیت لینا، نئی نئی چیزیں سیکھنا اَور نئی جہتوں کو دریافت کرنا ہماری ڈکشنری میں نہیں ہیں۔ جھوٹ بولنا، دْوسروں کو دھوکا دے کر اْن کا مال غصب کرلینا، ہر صورت میں اَپنا فائدہ حاصل کرنا، ہر ترقی کے لیے شارٹ کٹ تلاش کرنا یہاں تک کہ آخرت میں جنت میں جانے کے لیے بھی شارٹ کٹ ڈھونڈنا ہماری سرشت میں پڑ چکے ہیں۔
پرنسس کو جنت بہت پسند ہے کیونکہ اْس کے نزدِیک وہاں چیز (پنیر)ملے گی، برگر بھی ہوں گے، فرائڈ چکن بھی وافر مقدار میں دستیاب ہوگا۔ اِس کے آگے اْسے جنت کے بارے میں کچھ پتا نہیں اَور وہ جاننے میں دلچسپی بھی نہیں رکھتی۔ اْسے پکا یقین ہے کہ وہ جنت میں ہی جائے گی کیونکہ وہ جھوٹ نہیں بولتی اَور کسی کو تنگ نہیں کرتی۔ جو لوگ اْسے ناپسند ہیں وہ صرف اْن سے منہ موڑ لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اْس کی دوستی ہے اَور وہ اْس کا بہت خیال رکھتا ہے اَور اْس کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے۔ اْس کے نزدِیک جنت میں جانے کے لیے اِتنا کافی ہے۔ لیکن جنت کے ساتھ ساتھ اْسے اَپنی دْنیا بہتر بنانے کا بھی بہت
شوق ہے۔ اِس کے لیے وہ بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اَبھی حال ہی میں وہ ایک بہتر سکول میں داخل ہوئی ہے اَور اِس بات پر وہ بے حد خوش ہے۔اْسے سکول جانے کا بہت شوق ہے۔ سکول سے چھٹی کرنا اْسے سخت ناپسند ہے۔ وہ سکول میں روز نئی نئی باتیں سیکھتی ہے اَور گھر آکر اَپنی ماں اَور اَپنے بھائیوں کو بتاتی ہے۔ وہ اَپنے دونوں بڑے بھائیوں کی غلطیوں کو خوب اچھی طرح جانتی ہے لیکن کسی کے معاملے میں ٹانگ اڑانا پسند نہیں کرتی خواہ وہ اْس کے بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔
آپ غور کریں کہ یہ تمام عادات اَور خیالات ہماری اکثریت میں نہیں پائے جاتے۔ ہمیں علم حاصل کرنے، نئی نئی باتیں سیکھنے میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی ہے۔ ہمارے نزدیک جھوٹ بولنے اَور دْوسروں کو تنگ کرنے کا جنت میں نہ جانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے کلمہ پڑھ لیا ہے اَور ہم نبی اکرم ؐ کے اْمتی ہیں، بس جنت میں جانے کے لیے یہ کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا کوئی تعلق قائم نہیں ہوسکا ہے۔ زندگی میں ہم اْس کی طرف توجہ بھی نہیں دیتے۔ لوگوں کے خیال میں اللہ تعالیٰ کو صرف اِس میں دلچسپی ہے کہ کون نمازیں پڑھ رہا ہے، روزے رکھ رہا ہے اَور حج اَور عمرے کررہا ہے۔ کچھ کے نزدیک اِن میں مذہبی مواقع پر جلوس میں شامل ہونا بھی اہم ہے۔ اگر کسی طرح دْنیا کے تمام کافروں، بدعقیدہ لوگوں، مشرکوں، بدعتی لوگوں کو بم سے اْڑایا جاسکے تو لوگوں کے نزدیک یہ بہت بڑا ثواب کا کام ہوگا۔ پھر وہ جنت کے حق دار ہوں گے۔ جنت میں اْن کی دلچسپی حوروں سے شروع ہوکر اْن پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ فی جنتی اگر ستر حوریں ملنی ہیں تو ہمارے لوگوں کی رال یہیں سے ٹپکنا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ اِن حوروں کو حاصل کرنے کے لیے دْنیا کے کسی بھی اِنسان کا قتل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے ہر معاملے میں ٹانگ پھنسانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے کیونکہ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہمیں سب کچھ پتا ہے اَور موقع بے موقع دوسروں کو ٹوکنا گویا نہایت اَعلیٰ کام ہے۔ ہمیں جو لوگ ناپسند ہیں ہم ساری توجہ ان پر صرف کردیتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ سیاست دانوں کی ساری توجہ اَپنے مخالفوں کی خرابیاں تلاش کرنے، ان کا چرچہ کرنے اَور ان کے خلاف سازشیں کرنے میں صرف ہوجاتی ہے۔ اِس سے آدھی محنت میں اَپنی خرابیاں دْور کی جاسکتی ہیں۔ اَور سیاست دانوں پر ہی کیا موقوف ہے۔ گلی محلوں میں پڑوسیوں کے گھروں کی ٹوہ میں رہنا، سسرالی رِشتے داروں کی عیب جوئیاں کرنا ہمارے پسندیدہ مشاغل ہیں۔ خواب دیکھنا، زِندگی میں کچھ کردِکھانا، اَپنی توجہ دنیا کو بہتر جگہ بنانے پر صرف کرنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ یہ کام ہم نے کافروں کے حوالے کردِیے ہیں۔ چنانچہ میری تو یہی درخواست ہوگی کہ ہم پرنسس سے ہی یہ سیکھ لیں کہ زندگی کیسے بسر کی جائے اَور آخرت کیونکر بہتر بنائی جائے۔
تبصرے بند ہیں.