امریکا میں یہ الیکشن کا سال ہے جہاں انتخابی مہم پورا سال چلتی ہے۔ اس دفعہ وہاں الیکشن مہم کے دوران ایسے واقعات ہوئے ہیں جس سے یوں لگتا ہے کہ وہاں بھی بالکل پاکستان والا ماحول بنا ہوا ہے۔ سیاستدان امریکہ کا ہو یا پاکستان پاور پالیٹیکس میں شہریت کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی اقتدار کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کرنے کی اور پھر اس سے چمٹے رہنے کی ہوتی ہے۔
2013ء کے پاکستان کے عام انتخابات میں جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیمن پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر تھے انتخابی مہم زوروں پر تھی ان کی عمر اس وقت 83 سال تھی جس پر بڑے سوال اٹھ رہے تھے لیکن ان کی تعیناتی کرنے والوں نے اس چیز کا قطعی خیال نہیں رکھا۔ انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں ایک دفعہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی انہیں ملنے آئے یہ ملاقات میڈیا میں نمایاں طور پر اجاگر کی گئی جسٹس صاحب کی ایمانداری ضرب المثل تھی مگر ان کی طویل العمری ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ شرارتی میڈیا والوں نے جنرل کیانی کے ساتھ فخرو الدین جی ابراہیم جو فخرو بھائی کے نام سے مشہور تھے۔ اس ملاقات کو مزاحیہ رنگ دے دیا اور یہاں تک لکھا گیا کہ جب جنرل کیانی ملاقات کے اختتام پر اٹھ کر رخصت ہونے لگے تو فخرو بھائی نے انہیں کہا کہ جنرل کیانی کو میرا سلام دینا۔
حالیہ امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے جب صدر جوبائیڈن کو دوسری مدت کے لیے صدارتی امیدوار نامزد کیا تو ان کی عمر 81 سال تھی ان کے کبیر سنی پر پارٹی کے اندر اور باہر بہت سوالات اٹھائے گئے مگر فیصلہ ساز ٹس سے مس نہ ہوئے کیونکہ امریکہ میں سیاسی پارٹیوں میں یہ روایت ہے کہ منتخب صدر اگر دوسری مدت کے لیے امیدوار ہو تو پارٹی لازمی طور پر اسے ہی نامزد کرتی ہے لیکن جوبائیڈن پہلے صدارتی امیدوار تھے جو 80 کا ہدف عبور کر چکے تھے پھر بھی انہیں پارٹی نے نامزد کر دیا۔ لیکن ان کی عمر صحت اور یادداشت کے بارے میں جو باتیں پارٹی کے اندرونی حلقوں میں پہلے سر گوشیوں میں ہوتی تھی وہ آہستہ آہستہ زور پکڑنے لگیں۔ دوسری طرف ان کے مخالف امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے انہیں امریکی تاریخ کا بدترین صدر قرار دیدیا تو پارٹی کے اندر اخلاقی دباؤ مزیدبڑھ گیا۔
اسی دوران جون میں ٹرمپ اور بائیڈن میں جو براہ راست مناظرہ ہوا اس میں ٹرمپ کا پلہ بھاری تھا جس سے جوبائیڈن کی پارٹی کے اندر نامزدگی پر ایک انتشار کی کیفیت بڑھنے لگی مگر بائیڈن بضد تھے کہ وہی ٹرمپ کا مقابلہ کریں گے۔ ڈیموکریٹس کو اس وقت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب گزشتہ ہفتوں میں نیٹو اتحادیوں کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں صدر بائیڈن نے یوکرائن کے صدر ولادی میر زیلنسکی کو صدر پیوٹن کہہ کر متعارف کرایا شاید روسی صدر پیوٹن اس قدر ان کے اعصاب پر سوار ہو چکے تھے اسی طرح ایک اور موقع پر انہوں نے اپنی نائب صدارتی امیدوار کملا ہیرس کو وائس پریذیڈنٹ ٹرمپ کہہ گئے یہ بظاہر تو زبان کی لغزش ہو سکتی ہے مگر اس سے ان کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا اور ان کے خلاف پارٹی کے اندر جو آوازیں اٹھنا شروع ہوئی تھیں ان کی رفتار اور شدت مزید تیز ہو گئی۔
بالآخر جوبائیڈن نے غیر متوقع طور پر صدارتی امیدوار کی دوڑ سے رضاکارانہ طور پر آؤٹ ہو گئے یہ بہت بڑی سرپرائز تھی۔ دو دن پہلے میڈیا کوبتایا گیا کہ انہیں کرونا ہو گیا ہے اور وہ آئیسولیٹ ہو گئے ہیں لیکن اب لگتا یہ ہے کہ کرونا کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بطور صدر اپنی خدمات جاری رکھیں گے اور ساتھ ہی انہوں نے پارٹی سے کہا ہے کہ ان کی سفارش پر نائب صدر کی امیدوار کملا ہیرس کو صدارتی امیدوار بنا دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کملا پہلی خاتون امیدوار ہو سکتی ہیں جن کی ماں کا تعلق انڈیا سے تھا جس نے ایک سیاہ فام امریکی سے شادی کی تھی۔
بائیڈن کے ریس سے آؤٹ ہونے کے بعد امریکی الیکشن ری پبلیکن پارٹی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے اور ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست پاکستانی سیاست کے زیادہ قریب ہے آپ کو یاد ہو گا کہ جب وہ پچھلا الیکشن ہارے تھے تو انہوں نے فوری طور پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا پھر انہوں نے وائٹ ہاؤس خالی کرنے سے انکار کر دیا تھا اس کے بعد انہوں نے بائیڈن کی حلف برداری روکنے کے لیے وہاں ہنگامہ بھی کرایا تھا یہ سارے عوامل دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ پاکستان سیاست کے زیادہ قریب ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک جلسہ عام میں انہیں کان پر گولی لگی اب وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ میں نے امریکہ کے لیے گولی کھائی ہے۔ انہوں نے اس قاتل کی آخری رسومات میں شامل ہونے کا بھی اعلان کیا جس نے ان پر گولی چلائی تھی اور بعد ازاں سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔
ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد حیرت انگیز فیصلے ہوں گے۔ گزشتہ دور میں آپ کو یاد ہو گا کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے منحرف ہو گئے تھے لیکن سب سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی پہلے سے زیادہ حمایت کریں گے۔ اسرائیل نے بائیڈن کے بارے میں کہا ہے کہ وہ پہلے امریکی صدر تھے جو دوران جنگ اسرائیل کے دورے پر آئے تھے۔ ٹرمپ کے داماد یہودی ہیں اور یہودی تنظیموں اور اسرائیل کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔
بہرحال پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہیں ٹرمپ کے دور میں جتنے غیر سفارتی بیان انہوں نے پاکستان کے بارے میں دیے وہ آن ریکارڈ ہیں البتہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں خرچ کریں گے کیونکہ افغانستان سے امریکی انخلاء کو وہ اب بھی اپنا بہت بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.