حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان بہت سی ریفارمز کا مطالبہ کر رہا تھا لیکن وہ وقت پاکستان کے سیاستدانوں اور اداروں نے کھو دیا۔ اب یہ ملک ایک انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن انقلاب اور انارکی میں ایک باریک سے لکیر کھچی ہوتی ہے۔ انقلاب کسی منشو ر، پروگرام یا ایجنڈے پر ہوتا ہے جسے ایک منظم تنظیم اپنے تربیت یافتہ ورکرز کے ساتھ سرانجام دیتی ہے جبکہ انارکی میں ایک بڑا ہجوم ریاست کے ہر شہر میں نکل کر الگ الگ مطالبے کر رہا ہوتا ہے اور کسی شُترِ بے مہار کی طرح جدھر سینگ سمائے نکل جاتا ہے۔ فرانس میں بھی یہی ہوا تھا کہ فرانسیسی قوم نے چونکہ کسی سائنسی انقلاب کا مطالعہ پہلے سے نہ کر رکھا تھا اور نہ ہی کسی کامیاب معاشی انقلاب کا کوئی مشاہدہ اُن کے پاس تھا سو بادشاہ، ملکہ، شہزادے، شہزادیاں قتل کرنے اور افواجِ فرانس کو شکست کو دینے کے بعد انہیں معلوم نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتا ہوا تضاد مختلف گروہوں میں عدمِ برداشت پیدا کر رہا ہے جو کسی وقت بھی آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ سکتا ہے۔ مسلم لیگ اور اُس کے اتحادیوں کی حکومت کے درمیان سیاست سے زیادہ منافقت ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک ہاتھ سے مخالفوں کا گریبان اور دوسرے ہاتھ سے اپنی شلوار پکڑ رکھی ہے۔ مولانا فضل الرحمان عمر کے اس حصے میں محلے کے لونڈوں کے جھانسے میں ا ٓ رہے ہیں اور اپنے سیاسی ماضی کو رسوا کرا رہے ہیں۔ مولانا سے تمام ترنظریاتی اختلافات کے باوجود میں اس بات سے کبھی انکار نہیں کرسکتا کہ ضیاء الحق کے دور میں جمہوریت کیلئے اُن کی اور اُن کے ساتھیوں کی بہت قربانیاں ہیں مگر سیاست میں انسان کو سب سے پہلے اپنی عزت آپ کرنا پڑتی ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتاتو بات بالکل سیدھی ہو جاتی ہے کہ جو شخص اپنی عزت کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ کروڑو ں انسانوں کی عزت کیلئے کیا خاک لڑے گا۔جب آج تک عمران نیازی کسی کے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکا تو نیچے تو کسی کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران نیازی خود سر ٗ ضدی اور ہٹ دھرم ہونے کی وجہ سے مذاکرات نہیں کرتا سو میں یہ بات انتہائی ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ عمران نیازی مکالمے کی صلاحیت سے ہی عاری ہے۔ وہ اکیلا کھڑ ا ہو کردس گھنٹے بول لے گا لیکن اُسے اپنی گفتگو پر سوال کسی صورت بھی برداشت نہیں چہ جائیکہ کوئی اُس کی بات کوہی غلط کہہ دے۔
مہنگائی کا طوفان پاکستان کے ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ بجلی کے بل آسمانی بجلی بنا کر پاکستان کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقات پر گر رہے ہیں لیکن وفاق اور چاروں صوبوں کی اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کیلئے کسی صورت تیار نہیں بلکہ اِس بجٹ میں بہت سی ایسی عیاشیاں تھیں کہ جن کے ختم ہونے کی امید کی جارہی تھی لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا بلکہ اُن اخراجات کو بڑھا دیا گیا ہے۔ زندہ رہنے کی ہر چیز زندگی سے بھی مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور وہ غریب مزدور جو بارہ گھنٹے کی زندگی بیچ کر باقی کے بارہ گھنٹے زندہ رہ لیتا تھا اب اُسے بھی اپنی روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ بجلی کے بلوں میں ناجائز اور نا قابل ِ فہم ٹیکسو ں کی بھر مار دیکھ کر کشمیر کے گلاب سنگھ ڈوگرہ راج کی یاد آ جاتی ہے جس کے ٹیکسوں سے تنگ آ کر کشمیریوں نے 1846ء کے بعد پہلی بڑی ہجرت کی اور پنجاب کے میدانی علاقے میں اتر آئے لیکن آج پاکستان پر ٹیکسوں سے ستائے انہیں کشمیریوں کی ہی حکومت ہے جن کے بزرگوں نے کشمیر کی جنت چھوڑ کر جاتی امراء کا انتخاب کیا تھا لیکن انہیں اس بات کا ذرا بھی خیال نہیں کہ آج پاکستانیوں کے اوپر جو ٹیکس لگائے جا رہے ہیں وہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ٹیکسوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
دوسری طرف اداروں کے درمیان بڑھتا ہوا تضاد کسی بھی بڑے حادثے کو جنم دے کر پاکستان سے جمہوریت کی بساط لپیٹ سکتا ہے جو کسی صورت میں بھی پاکستان کے جمہوریت پسندوں کیلئے ایک انتہائی تکلیف دہ خبر ہو گی لیکن جو ہرآمر کی گاڑی کے ساتھ لٹکتے رہے ہیں وہ پھر کوئی نہ کوئی پناہ گاہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔میرے لیے یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے ایم این ایز کی نشستیں کس طرح پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کا تو کوئی ایسا مطالبہ تھا ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس سلسلہ میں عدالت کے سامنے پیش ہوئی تھی مگر شیر جنگل کا بادشاہ ہے وہ انڈہ دے یا بچہ اُسے کون روک سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلے پر بہت سے باتیں ہیں جو لکھی جاسکتی ہے لیکن کیا یہ سب سے زیادہ عجیب و غریب نہیں کہ حکومت کی نظر ثانی کی اپیل ہی منظور نہیں ہوئی یعنی اُسے سپریم کورٹ کی چھٹیوں کے بعد پر رکھ دیا گیا ہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کو جان کے لالے پڑے ہیں اور یہ سفید ہاتھی بچوں کی طرح چھٹیاں مانگ رہے ہیں تاکہ بیرونی ممالک میں جا کر سیر سپاٹا کیا جا سکے۔
میاں محمد نواز شریف نے البتہ کہا ہے کہ ”بجلی کا بل ہر ایک کیلئے مصیبت بن چکا ہے“ لیکن میاں صاحب ماضی سے نکل نہیں رہے وہ ابھی تک 2018 ء کے انتخابی نتائج پر کھڑے ہیں جبکہ دنیا بہت آگے نکل چکی اور پاکستان میں بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا۔ میاں محمد شہباز شریف جس پارٹی کے وزیر اعظم ہیں میاں محمد نواز شریف اُسی پارٹی کے صدر ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑی آبادی کے صوبے کی وزیر اعلیٰ اُن کی دختر ہیں۔ اس کے علاوہ آصف علی زرداری بھی میاں محمد نواز شریف کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں سو انہیں ذاتی مفاد ات اورماضی کے بُرے خوابوں سے نکل کر پاکستان کے عوام کیلئے کوئی بہتر بلکہ بہترین پروگرام اپنے بھائی اور بیٹی کودینا چاہیے۔ اقتدار کیلئے اس ملک میں جس نے عوامی طاقت کے علاوہ جب بھی باہر دیکھا وہ باہر ہی ہو گیا لیکن پاکستان واقعی ایک نازک موڑ پر آچکا ہے اور ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے۔ ورنہ وہ وقت اب بہت دور نہیں کہ کسی کے پاس بھی بچانے کیلئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ فچ کا تجزیہ ہو یا امریکی قرارداد پاکستان کے اقتدار کافیصلہ پاکستان کے ادارے ہی کریں گے لیکن بدقسمتی سے اداروں کے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ایک بار پھر نظریہ ضرورت کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو اس بار، موجودہ حالات میں تو پاکستان کیلئے کسی صورت بھی کو ئی اچھا شگون نہیں ہو گا۔ میں چشم تصورِ سے ایک بد ترین انارکی دیکھ رہا ہوں خدا کرے کہ ایسا نہ ہو لیکن خدا اُس قوم کے حالات کبھی نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتی اور ابھی ہم نے کچھ بھی نہ بدلنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔
تبصرے بند ہیں.