ریاست کا صبر ختم

155

پاک فوج کے سپہ سالارجنرل حافظ عاصم منیر نے رواں برس نو مئی کو لاہور گریژن میں کہا تھا کہ ان کے ادارے کے صبر کو لامحدود نہ سمجھا جائے اور یہ بات بھی درست ہے کہ جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لئے ایک برس کا وقت بہت تھا مگر انہیں عبرت کا سامان نہیں بنایا جا سکا۔ وہ وکٹریوں کے نشان یوں بناتے پھرتے ہیں جیسے انہوں نے کشمیر فتح کر لیا ہو۔ ان کا براہ راست مقابلہ فوج کے ساتھ ہے۔ وہ اندرون وبیرون ملک اسی کوٹارگٹ کرتے ہیں اور اسی سے مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ نومئی کے واقعات کے باوجود فوج بھی ان کے ساتھ’کانفیڈنس بلڈنگ مئیرز‘چاہتی تھی۔ وہ اکہتر کے سانحے سے سبق سیکھتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے منتخب وزیراعلیٰ کو پشاور چھاؤنی میں کابینہ سمیت مدعو کیا گیا۔ انہیں افطار ڈنر دیا گیا۔پاک فوج کے ترجما ن پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معافی مانگ لی جائے۔ کوئی اچھا سمجھے یا برا مگر یہ ایک اچھائی ہے، بڑائی ہے کہ فوج انہیں معاف کرنا چاہتی ہے مگر وہ ابلیس کی روایت پر عمل کررہے ہیں۔وہ نہ غلطی پر نادم ہیں نہ معافی مانگنے پرتیار، الزام پر الزام لگا رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کے ترجمان، وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے اچانک پریس کانفرنس نہیں کردی بلکہ پی ٹی آئی کو دو برس سے بھی زائد کا وقت دیا گیا۔ سب سے پہلی غلطی یہ تھی کہ جب آئینی طریقہ کار اور پارلیمانی ضوابط کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی تھی تو فواد چوہدری کی پیش کی گئی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور ڈپٹی سپیکر قاسم سُوری نے آئین سبوتاژ کیا۔ قومی اسمبلی کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر توڑا اور اسی دوران سائفر کا ڈراما کیا گیا۔ اس پر عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جو ان تینوں، چاروں پر آرٹیکل سکس نافذ کرتے ہوئے سنگین سزا دینے کی پوری راہ ہموار کرتا ہے۔ کیا یہ نہیں مانیں گے کہ دو برس سے زائد عرصہ گزر گیا مگر اس فیصلے پر عملدرآمد سے صرف نظر کیا گیا اور انتظار کیا گیا کہ پی ٹی آئی آئینی اور جمہوری راستے پر آجائے مگر اس کے برعکس اس سیاسی جماعت نے لانگ مارچ کر کے اسلام آباد میں آ گ لگائی۔ اس سیاسی جماعت کے شرپسندوں نے زمان پارک لاہور کے علاقے کو نوگوایریا بنا کے رینجرز اور پولیس پر دستی بموں سے حملے تک کئے۔ عمران خان نامی سیاستدان کی گرفتاری کوئی نئی یا انوکھی شے نہیں تھی کہ اس سے پہلے بہت سارے سیاستدان اور وزیراعظم گرفتار ہو چکے، جیلیں اور جلاوطنیاں تک برداشت کرچکے مگر اس نے لاہور کی عدالت کی طرف سے ضمانت منسوخ کرنے کے فیصلے کے مطابق باقاعدہ طور پر فوجی تنصیبات پر حملوں کے لئے اجلاس منعقد کیا، پنجاب کی صدر یاسمین راشد سمیت دیگر کی ڈیوٹیاں لگائیں اور پھروہ کچھ کیا جو بھارت پینسٹھ کی جنگ میں بھی نہیں کرسکا تھا، وہاں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور بھتیجے تک حملے کرنے کے لئے موجود تھے یعنی پورا ٹبر ہی ملوث۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میاں نواز شریف کے سابق دو رمیں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا گیا تھا۔ عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیا گیا تھا مگر پی ٹی آئی کے ساڑھے تین برس میں جہاں ستربرسوں کے قرضوں کے ستر فیصد سے بھی زائدقرضے لئے گئے وہاں آئی ایم ایف کے اونٹ کو بھی خیمے میں دوبارہ گھسا لیا گیا۔ یہاں تک تو خیر تھی مگر ستیاناس پر سوا ستیاناس یہ کیا گیا کہ اپنا ہی کیا ہوا معاہدہ وقتی سیاسی فائدے کے لئے توڑ دیا گیا۔ اس نے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں ہی نہیں بلکہ دوست ریاستوں کے سامنے بھی لمبا لٹا دیا، ہمارا ملک ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچ گیا۔ میں اپنے ان عوام کے ساتھ ہوں جو اس وقت مہنگی بجلی اور مہنگے پٹرول پر سراپا احتجاج ہیں مگر مجھے کہنے دیجئے کہ اگر عمران خان اوراس کے گروہ کی سازش ناکام ہوجاتی، خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ ہوجاتا تو اس وقت پونے تین سو روپے لیٹر ملنے والا پٹرول پونے تین ہزار روپے لیٹر بھی نہ مل رہا ہوتا اور پچاس روپے ملنے والا بجلی کایونٹ پانچ سو روپے میں بھی دستیاب نہ ہوتا۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے کارخانے بند ہوجاتے اور کروڑوں بے روزگار۔ یہ شہباز شریف ہی کی محنت تھی جس نے وطن عزیز کو اس بدترین صورتحال سے بچا لیا مگر اس میں بھی پی ٹی آئی نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سامنے مظاہرے کئے کہ پاکستان کی امداد روک دی یاجائے۔ مجھے کہنے دیجئے، خدا کی قسم، یہ نقصان ہمیں ہمارا بدترین دشمن بھارت نہیں پہنچا سکتا تھا جو اس کلٹ اوراس کے لیڈر نے پہنچائے مگر کہانی ابھی ختم کہاں ہوئی ہے، ہم پر ظلم و ستم کی یہ داستان ابھی جاری ہے۔ عمران خان کے بلنڈرز کی قیمت ہم ابھی تک ادا کر رہے ہیں، کیا، کیوں، کیسے، اگلے پیراگراف پر آجائیں۔
عمران خان اوراس کا حامی کلٹ، جن میں بدقسمتی سے حافظ نعیم الرحمان سمیت دیگر بھی شامل ہیں، یہ سب دہشت گردوں کو اپنے لوگ کہتے ہیں۔ میرے پاس موجود اعداد وشمار کے مطابق صرف اس برس عمران خان اورحافظ نعیم الرحمان کے اپنے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے افسران اور جوانوں کی تعداد ڈیڑھ سو تک پہنچ چکی ہے۔ ابھی آپ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے حملے ہی دیکھ لیجئے۔ یہ فکری مغالطے پیدا کرتے ہیں، دانشورانہ گمراہیاں پھیلاتے ہیں اور اپنی قوم سے اپنی فوج کے فاصلے پیدا کرتے ہیں۔ یہ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے وہ کام کرتے ہیں جو ہندوستان اور اسرائیل نہیں کرسکے۔ میں عمران خان، مولانا فضل الرحمان، حافظ نعیم الرحمان سمیت کسی کے بھی اختلاف کے حق سے انکار نہیں کرتا مگر عزم استحکام کی مخالفت کر کے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے قاتلوں سے مل جانے کا اختیار انہیں نہیں دیا جا سکتا۔ میرے منہ میں خاک، کیا ہمارے ان سیاستدانوں کے بچے بھی یہ دہشت گرد ماریں توکیا یہ پھر بھی ان قاتلوں اور ظالموں کے ترجمان،نگہبان اور پشتی بان ہوں گے؟ نہ یہ ان کا آئینی حق ہے اور نہ ہی سیاسی اور جمہوری۔ کوئی مہذب ریاست ایسے گروہوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں د ے سکتی۔ یہ لوگ امریکا اور برطانیہ میں ایسے حملے کر کے دیکھیں۔ ایسا ہی ایک حملہ ہوا تھا تو امریکہ نے افغانستان کو کھنڈر بنا دیا تھا مگر اس کے باوجود ریاست کہتی ہے کہ یہ وہ اپنے شہریوں سے نہیں لڑنا چاہتی۔ وہ چاہتی ہے کہ غلطی کا اعتراف کر لیا جائے، اس پر اکڑا نہ جائے مگر پی ٹی آئی نے وہ موقع بھی ضائع کر دیا ہے۔ریاست کے صبرکی انتہا ہو گئی ہے اور ریاست صرف حکومت اور فوج نہیں ہیں یہ عوام بھی ہیں جن پر معاشی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ شیخ رشید کے مطابق عمران خان جومعاشی بارودی سرنگیں بچھا کر گئے تھے اب وہ بدترین اور جان لیوا مہنگائی کی صورت میں پھٹ رہی ہیں۔ خدا پاکستان کے دشمنوں کو غارت کرے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.