گزشتہ دنوں میرے محترم دوست بلکہ میں ان کو کبھی کتاب دوست، کبھی کتاب فروش، تو کبھی قلم فروش کے خطابات سے نوازتا رہتا ہوں۔ نام ہے ان کا عبدالستار عاصم۔ کتاب کے حوالے سے ان کی خدمات میرے ذمے ادھار ہیں، کل انہوں نے مجھے مشہور زمانہ نامور صحافی، شاعر دبنگ، جرأت مند اور اس دلیر انسان کی کتاب ”موت سے واپسی“ بھجوائی جس کے بارے میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اس کے نام سے حکمران کانپتے تھے۔ اس کے نام سے حکومتیں ختم ہونے کے خدشات پائے جاتے تھے۔ اس کی للکار جب ایوانوں میں پہنچتی تو پھر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے ڈکٹیٹرز سوائے ان کو جیل میں رکھنے کے کچھ اور اقدام نہیں اٹھا سکتے تھے۔ آغا شورش کاشمیری نے آزادی سے قبل اور پھر آزادی کے بعد صحافت سے لے کر سیاست اور پھر ختم نبوت کی جو تحریکیں چلائیں اور جن کا وہ حصہ بنے یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے فرد واحد کے طور پر ایک بڑی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ضمیروں کو جگایا۔ جن کے حقوق سلب ہو رہے تھے ان کو باور کرایا کہ اٹھو اور اپنی خاطر حق کی جنگ لڑو یہ جنگ لڑو گے تو پھر تمہیں ہر طرف آغا شورش کاشمیری ہی نظر آئے گا۔
میرے سامنے آغا شورش کاشمیری کی کتاب ”موت سے واپسی“ پڑی ہے جو مجھے ماضی کے دریچے کھولنے پر مجبور کر رہی ہے اور تاریخ بار بار دہرا رہی ہے کہ اقتدار کے کھلواڑ میں کس کس نے میرے پاکستان کی کمر میں چھرا گھونپا، کس کس نے لوٹا، کس کس نے اس کو برباد کیا اور اس اقتدار کے پیچھے ان چھپے رازوں کی داستانیں انہی ایوانوں میں رقم ہوتیں، انہی ایوانوں میں عورت کو نچوایا گیا، انہی ایوانوں میں بدمست نشے میں ایک حکمران نے ہم سے مشرقی پاکستان جو کہ ہمارا بازو تھا کٹوا دیا، انہی ایوانوں میں ہونے والے غلط فیصلوں نے قوم کو ہجوم میں بدل دیا، انہی ایوان کے کئے غلط فیصلوں سے آج ادارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ 1947ء سے 2024ء تک انہی ایوانوں میں بغاوتوں کی صدائیں سنائی دیں۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
آج عدالتیں کس طرح کے یکطرفہ اور نوازنے کے فیصلے کرکے پاکستان کے بکھرے حالات کو مزید بکھیر رہی ہیں۔ جب آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک لاڈلے کو نوازا جائے گا جب اصلیت کو چھپا کر ایک مصنوعی بحران پیدا کیا جائے گا جب تقسیم کے عمل میں دھاندلہ پیش کیا جائے گا تو پھر ایسے عدالتی نظام پر ایک نہیں کئی سوالیہ نشان آئیں گے اور جب تاریخ خود کو دہرائے گی تو کئی آستینوں کے سانپ ظاہر ہوں گے مگر اس وقت ان کے ظاہر ہونے کا کیا فائدہ جب چڑیاں سارا کھیت چگ جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ غلط کو غلط کہو گے تو انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور جب انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے ہی بڑی عدالتوں سے غلط ذہن سازی کی غلط تشریح کریں گے تو پھر معاملات کبھی سلجھیں گے نہیں۔
بات کہاں سے چلی کہاں پہنچ گئی۔ آغا شورش کاشمیری کی کتاب ”موت سے واپسی“ میں یوں تو جو واقعات چشم دید کے طور پر آپ بیتی اور جگ بیتی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں ان کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے ہمارے ساتھ، قوم کے ساتھ، ملک کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو ازلوں سے ہمیں جہیز میں سب کچھ دے دیا گیا ہے۔ اس کالم میں آغا شورش کاشمیری دوران قید کراچی جیل سے لکھا گیا ایک خط رقم کر رہا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
گرامی منزلت……سلام مسنون
آپ کی زبان سے موجودہ آمریت کے حق میں کلمہ استحسان نکلتا ہے تو مجھے حیرت نہیں ہوتی کہ آپ اس کا جزو ہیں افسوس ضرور ہوتا ہے۔ امام زین العابدین کے نور نظر سے حجاج نے سوال کیا۔
”کیسے گزر رہی ہے۔“
فرمایا۔ ہر حالت میں اللہ کی رضا شریک حال ہے،
حجاج بولا۔ کٹتی کیسے ہے؟
فرمایا۔ ہماری مصیبت کے دن بھی تمہارے اقتدار کی طرح جلد از جلد گزرجائیں گے۔ اقتدار سے زیادہ کوئی چیز فانی نہیں ماضی کے کتنے ہی باجبروت حکمران آج قبروں میں مٹی کے چراغوں اور سبزہ وگل کو ترس گئے ہیں۔ ان کے مزار عبرت کے نوشتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے کیا عمدہ بات کہی ہے۔
”کمینہ سے اس وقت بچو جب اقتدار میں ہو۔ شریف سے اس وقت ڈرو جب مظلوم ہو۔“ کلام اسد اللہ کی یہی ادائیں ان ویرانوں میں ہم ایسوں کی ڈھارس بندھاتی ہیں، امیر علیہ السلام فرماتے ہیں۔
”حکومت بارش کے قطرے کی طرح ہے صدف میں جاتا تو موتی بن جاتا ہے، سانپ کے منہ میں جائے تو زہر ہو جاتا ہے۔“
میں یہاں رہ کر غافل نہیں، میرے رشتے عوام سے ہیں آپ کے حکام سے! اور حکام میں بھی وہ لوگ اور وزراء آپ کے گرد و پیش ہیں جن کا وجود مٹی کے آبخورے سے زیادہ قیمت نہیں رکھتا آپ تلوار کے آدمی ہیں آپ نے قلم سنبھال کے غلطی کی ہے، یہ آپ کے بس کا روگ نہیں قلم تلوار سے کمزور چیز ہے لیکن اس کی کاٹ بڑی خطر ناک ہے اور ہمیشہ رہتی ہے۔ آخر میرے مقدمہ میں آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں اس طرح نہیں مروں گا، حکومت نے ہائی کورٹ میں جو روش اختیار کی ہے اس کی عزت میں اس سے ذرہ برابر اضافہ نہیں ہوا، بلکہ آپ کے خانہ زاد بھی اس پر ہنستے ہیں، ججوں کو متاثر و مرعوب کرنے کی رسم آخر کار ان لوگوں کیلئے بھی قید و بند کی دیوار بن سکتی ہے جو آج حکومت کی مسند پر بیٹھ کر خدائی کا دعویٰ کر رہے ہیں، اللہ کا فیصلہ آپ کے فیصلہ سے بالکل مختلف ہے۔ انشاء اللہ آپ سے ملاقات ہوگی ضرور ہو گی۔ والسلام۔
شورش کاشمیری
سنٹرل جیل – کراچی
تبصرے بند ہیں.