پاکستان میں 2018ء سے لے کر اب تک 6 سال میں 8 وزرائے خزانہ ملکی معیشت کی بہتری کی کوشش کر چکے ہیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ محمد اورنگزیب حالیہ سالوں کے 9 ویں وزیر خزانہ ہیں یہ سارے لوگ قابلیت کے لحاظ سے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن ان میں کوئی ایک بھی نہیں چل سکا بلکہ ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں کہ انہیں آئی ایم ایف کے کہنے پر نکالا گیا اور یقینا ایسے بھی ہیں جن کو آئی ایم ایف کے کہنے پر لایا گیا۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین Debt Trap کا شکار ہے جس میں شہریوں کا ایک ایک بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ ملکی آمدنی کا 57 فیصد حصہ قرضوں کی واپسی پر خرچ ہو جاتا ہے جو باقی بچتا ہے اس کا آدھے سے زیادہ صوبوں کو دے دیا جاتا ہے بقیہ میں سے پنشن اور تنخواہیں ادا کر دی جائیں تو ملکی خزانے میں نیٹ بچت صفر ہو جاتی ہے ملک چلانے کے لیے قرضوں کا سہارا لیا جاتا ہے جتنے قرضے ہم لے چکے ہیں اگر یہ پیسہ ملک میں ترقیاتی مقاصد، کاروبار یا زراعت میں بہتر آمدن کے لیے لگایا جاتا تو شاید آئی ایم ایف کی ضرورت نہ پڑتی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 24 واں پروگرام چل رہا ہے ان کی منتیں جاری ہیں مگر ابھی تک وہ نہیں مان رہے اس دفعہ 8 بلین ڈالر کا ریکارڈ قرضہ ڈیمانڈ کیا جا رہا ہے۔ 26 بلین چائنا کا بھی دینا ہے۔
ہماری قومی قیادت کاروباری طبقوں پر مشتمل ہے جن کے اثاثہ جات ہر سال تیز رفتاری سے بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کو پیسہ کمانے میں خاصی مہارت حاصل ہے مگر جب یہ ملک چلانے آتے ہیں تو وہ قرضوں کی دلدل میں پہلے سے زیادہ گہرائی میں دھنس جاتا ہے یہاں ان کی کاروباری مہارت کہاں چلی جاتی ہے۔ حکومت نے عوام کو خوشخبری دی ہے کہ پاکستان کا سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 80 ہزار کا ہدف عبور کر چکا ہے لیکن کیا مجال ہے کسی غریب کو اس میں سے ایک پیسے کا بھی فائدہ پہنچا ہو۔
ہمارے وزرائے خزانہ کی مہارت بہت زیادہ ہے ہمارے موجودہ وزیر خزانہ اس منصب پر آنے سے پہلے تین کروڑ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے تھے ان کا شمار دنیا کے ٹاپ ٹین بینکرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے وزیر بننے کے لیے ہالینڈ کی شہریت واپس کر دی ہے اب وہ وزیراعظم کی کابینہ کو دی گئی ہدایت کے مطابق مفت کام کرتے ہیں کوئی تنخواہ نہیں لیتے اور دن رات ملک میں نئے سے نئے ٹیکس لگا لگا کر آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے سرگرم ہیں ان کا بیان ہے کہ 5 سال تو بہت زیادہ ہیں ہمیں اگلے تین ماہ میں بہت سا کام کرنا ہے۔ کام کیا کرنا ہے صرف ٹیکس وصولی بڑھانی ہے وہ انڈسٹری کاروبار روزگار زراعت ایکسپورٹ کسی چیز کی بات نہیں کرتے صرف ٹیکس لگانے اور ٹیکس بڑھانے کی بات کرتے ہیں اب تک ٹیکسوں کے نفاذ میں 60 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ان کا ایجنڈا صرف اور صرف ٹیکس بڑھانا ہے۔ اس سے حکومتی ترجیحات کا بھی اندازہ ہوتا ہے موجودہ حالت میں تو عوام اگلے 5 سال نہیں نکال سکیں گے لیکن موجودہ حکومت کے مدت اقتدار میں 5 ساسل کی بجائے 10 سال بھی کر دیے جائیں تو معاشی ترقی نہیں ہو گی کیونکہ ترقی کے سارے راستے انہوں نے ایک ایک کر کے بند کر دیے ہیں۔
ان حالات میں بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اورنگزیب صاحب کو وزارت قبول کرنے پر 35 لاکھ ماہانہ کا جو نقصان ہے اور انہوں نے کیوں اپنے گلے ڈالا ہے۔ امریکی معاشرے کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ There is no free lunch جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مفت کچھ نہیں ملتا۔
ٹیکسوں کے علاوہ اس وقت معیشت میں اگر کچھ ترقی ہو رہی ہے تو وہ بجلی کے بلوں میں ہے صرف پیسے اکٹھے کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے کہنے پر بلوں میں اضافہ جاری ہے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس کے معاشرتی اثرات کتنے بھیانک ہوں گے یہ ایک لاوا پک رہا ہے کیا معلوم یہ کسی وقت آتش فشاں کی صورت اختیار کرے۔ اسی دوران میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے مہنگائی کی آڑ میں اوور بلنگ کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں جان بوجھ کر میٹر ریڈنگ 30 کی بجائے 35 دن پر لے جانا عام سی بات ہے یہ لوگ بلنگ فارمولا کا غلط فائدہ اٹھا کر ایک ایک سب ڈویژن ماہانہ کروڑوں روپے زاہد وصول کرتی ہے جبکہ دوسری طرف لائن لاسزکی مد میں بجلی چوری کرنے والوں کا سارا نقصان بھی بل ادا کرنے والوں پر بانٹ دیا جاتا ہے۔ اب تو سولر سسٹم لگانے والے 2 لاکھ صارفین کی وجہ سے بجلی کی طلب میں جو کمی آئی ہے یعنی جو بجلی پیدا ہی نہیں کی گئی Capacity چارجز کے نام پر اس کا پیسہ بھی کنزیومرز پر ڈالا جا رہا ہے۔ اتنا احمقانہ اور اتنا ظالمانہ نظام روئے زمین پر آپ کو نظر نہیں آئے گا۔
ملکی معیشت ٹھیک کرنے کے لیے شوکت عزیز صاحب کو سٹی بینک امریکہ سے لایا گیا یہ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا معیشت پھر بھی درست نہ ہوئی تو انہیں وزیر خزانہ سے وزیراعظم بنا دیا گیا۔ معیشت پھر بھی ترقی نہ کر سکی۔ شوکت عزیز ایک اصطلاح Trickle down effect بہت تواتر سے استعمال کرتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ملک کا امیر طبقہ امیر تر ہو جائے گا تو وہ اپنی عیش و عشرت کی زندگی کے لیے اخراجات میں اضافہ کرے گا جس کے اثرات اوپر سے نیچے سفر کرتے کرتے غریب تک پہنچ جائیں گے تو وہ بھی خوشحال ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں Trickle down تھیوری بری طرح فیل ہو چکی ہے لیکن ہم ایک دہائی تک اس سے امید لگائے بیٹھے رہے نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔
اب بھی یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سٹاک ایکسچینج میں سٹہ کا کاروبار 80 ہزار سے عبور کر گیا ہے تو یہ ملک امیر ہو جائے گا یہ غربت ختم ہو جائے گی یہ نہایت احمقانہ بات ہے۔ اورنگزیب صاحب نے اپنے کیریئر کا سب سے بڑا جوا کھیلا ہے پچھلے 6 سال میں ناکام ہونے والے 8 وزرائے خزانہ کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ بھی ایک نہ ایک دن اپنا ڈچ پاسپورٹ واپس لینے کی درخواست کریں گے۔ ہمیں ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو اندھا دھند ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نظام میں ایسی اصلاحات کرے جس میں امیر کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے ہمارے ہاں غریب آدمی امراء سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.