اسمبلیوں کو نااہل ارکان کی ضرورت نہیں!

106

ضرورت سے کچھ زیادہ مہنگائی اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے شعور کی وجہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ سوچ بڑھتی جا رہی ہے کہ قومی خزانہ پر اربوں روپئے کا بوجھ ڈالنے والے اور انہیں کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد انہی کے سر پر حکمران بن کر بیٹھ جانے والے اراکین اسمبلی آخر ایسا کیا خاص کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے قومی خزانہ پر اتنا بڑا بوجھ ڈالا جائے۔ خصوصاً اسمبلی اجلاسوں کے دوران فعال طور پر اور بامعنی حصہ ڈالنے میں ناکام رہنے والے اراکین کا مسئلہ تو، بہت درست طور پر، تشویشن سے زیادہ نفرت کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
جمہوریت کا کیا ہی اچھا اصول ہے کہ اگر اراکین اسمبلی محسوس کریں کہ حکومت یا حکمران ٹھیک طریقے سے کام نہیں کر رہے یاکسی بھی اور وجہ سے وہ ا س پوزیشن کو برقرار رہنے کے قابل نہیں ہیں تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر ان کی حکومت سے چھٹی کروائی جا سکتی ہے۔جانے کیوں اتنے اچھے اصول کا اطلاق حکومتوں پرتو ہے لیکن ارکین اسمبلی پر نہیں۔قابل غوربات ہے کہ اگر اسمبلی اور اس کے ارکان کی ایک ٹرم کی مدت پانچ سال ہے تو اس حساب سے حکومت کی ٹرم بھی پانچ سال ہی ہونی چاہیے اور اگر حکومت کو وسط مدت میں فارغ کیا جا سکتا ہے تو ایسا کیونکر ممکن نہیں کہ ارکان اسمبلی کو بھی کسی نہ کسی اصول یا ضابطے کے تحت اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے؟
میرے خیال میں تو ملک میں کچھ ایسے قوانین بھی متعارف ہونے چاہیں جو پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھانے پر پابند کرنے کے علاوہ اراکین کواسمبلی اجلاسوں اور کاروائی میں اپنے فرائض کی احسن طریقے سے انجام دہی کا پابند بنائیں۔ اس کے علاوہ ان قوانین کے تحت اسمبلی میں ایک فعال کردار ادا کرنے میں مسلسل ناکام رہنے والے اور اپنے ووٹرز کی امیدوں اور ان کے معیار پر پورے نہ اترنے والے اراکین کو نہ صرف اسمبلی رکنیت سے فارغ کیا جا سکے بلکہ انہیں نااہلی کے مقدمہ کا بھی سامنا کرنا پڑے۔
یقینااسمبلی کا ا جلاس ایک انتہائی اہم کاروائی ہوتا ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندوں کوبحث، غور و خوض اور فیصلہ سازی کے عمل میں مشغول ہونا چاہیے تاکہ اچھی قانون سازی اور فعال حکمرانی کو تشکیل دیا جا سکے۔ ان سیشنز کی کاروائی کا انحصار اراکین کی فعال شرکت پرہوتا ہے، کیونکہ ہر رکن کی رائے اس کے حلقہ کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔تاہم، مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر ارکان یا تو سیشن کے دوران اسمبلی سے ہی غیر حاضر ہوتے ہیں اور اگر آ بھی جائیں تو ان کی مناسب تیاری ہی نہیں ہوتی اسی لیے وہ بحث و مباحثے میں فعال طور پر حصہ لینے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اس سے قانون سازی کے معیار اور تاثیر پر بھی سمجھوتہ ہوتا ہے۔
اسی طرح منتخب ہونے کے بعد اسمبلی میں کاٹھ کے الو بن کر بیٹھے رہنے اور سوائے مراعات لینے، کرپشن کرنے اور قومی خزانہ پر بوجھ بننے کے کچھ بھی نہ کرنے والے یعنی اسمبلی کاروائی میں ایک حد سے کم حصہ لینے والے اراکین کا حساب کتاب چیک ہونے کا بھی کوئی فارمولا ہونا چاہیے۔ اور جو لوگ پوری ٹرم میں اسمبلی کاروائی میں مناسب حد تک ان پٹ نہ دے سکیں انہیں بھی آئندہ اسمبلی الیکشن کے لیے نااہل قرار دے دینا چاہیے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اراکین کی اسمبلی سیشنر میں فعال شرکت کا اندازہ لگانے کے لیے کوئی نا کوئی معیار مقرر کیا جائے گا۔حاضری کا ریکارڈ، مباحثوں میں شرکت، تحاریک یا تجاویز پیش کرنا، اور بات چیت میں شمولیت اور اس کے دوران کی جانے والی شرکت کے معیارسے اراکین اسمبلی کی اہلیت کو جانچا جا سکتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ انتخابات کے موقع پر الیکٹیبلز کے پیچھے بھاگنے اور سفارشی اور چمچہ گیر قسم کے کرداروں کو ٹکٹ الاٹ کرنے کے بجائے ایسے امیدواران کو سامنے لائیں جو اسمبلی میں پہنچ کر ان کے لیے شرمندگی کے بجائے فخر کا باعث بنیں۔ یقینی طور پر کسی بھی ملک کی معیشت پر حکومت کی تبدیلی کے اثرات کچھ اراکین اسمبلی کے دوبارہ انتخاب سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ تواس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کچھ حلقوں میں نالائق اور نااہل اراکین کی چھٹی کروا کر ضمنی انتخاب کروانے میں سرکاری خزانہ پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔ لیکن اگرکسی بھی وجہ سے اس عمل کو قومی خزانہ پر بوجھ قرار دے دیا جائے تو بھی ایساقانون متعارف کروایا جا سکتا ہے کہ دو یا اڑھائی سال بعد اگر کسی بھی حلقہ میں ایک خاص تناسب سے زائد رجسٹرڈ ووٹر منتخب رکن اسمبلی پر عدم اعتماد کر دیں تو اس کی رکنیت تو ختم کر ہی دی جائے اور اس حلقہ میں نیا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ اس سلسلہ میں قومی خزانہ پر اضافی بوجھ سے بچنے کے لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ضمنی الیکشن کے اخراجات کا بوجھ نااہل قرار پانے والے امیدوار اور نیا الیکشن لڑنے والے امیدواران پر منتقل کر دیا جائے۔ (نااہل قرار پانے والے امیدوار پر اخراجات کا بوجھ بطور جرمانہ ڈالا جائے کہ وہ اپنے حلقہ کے ووٹرز کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا)۔
اس سارے عمل میں اس بات کی بھی گنجائش رکھنے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ رکن اسمبلی سے کسی قسم کی کوئی زیادتی نہ ہوجائے۔ طبی بنیادوں یا دیگر کسی بھی غیر معمولی حالات نے اگر مذکورہ رکن کی اسمبلی کاروائی میں موثر طریقے سے حصہ لینے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہو تو اسے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا پورا حق ہونا چاہیے تاکہ ایک شفاف جمہوری عمل پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ اٹھا یا جا سکے۔
قانون ساز اسمبلیاں اور ان کے اراکین کسی بھی ملک کی جمہوریت کا چہرہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں کہ جن سے یہ چہرہ چمکتا، دمکتا، شاداب اور خوشگوار نظر آئے۔

تبصرے بند ہیں.