عزم اتحکام کو عدم استحکام بنانے کی کوشش

98

ہم عجیب لوگ ہیں ہمارے سیاست دانوں نے اپنی منافقت میں عوام کے ذہنوں کو بھی معاوف کردیا ہے، سوچنے سمجھنے کی شروعات اپنے دل دماغ پر حاوی سیاست دان سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ سرحد پار سے دہشت گردی نے ہماری معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل رکھا ہے، ٹیکس ادا نہ کرنا بھی ملکی معیشت کے خلاف دہشت گردی ہی ہے۔ اب تو دوست ملک جس کے سی پیک منصوبے  نے ملکی معیشت کی آبیاری کیلئے پاکستان دوستی میں اپنا قدم رکھا ہوا ہے اسے ناکام کرنے کیلئے، بیرون ملک سے سرمایہ کاری روکنے کیلئے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی نے جہاں نقصان پہنچایا ہے وہیں ہمارے سیاست دانوں نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا ہے خاص طور پی ٹی آئی کے دھرنوں کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب سٹیج پر کھڑے ہوکر انکے کپتان نے بجلی کے بل پھاڑے، سٹیج سے اعلان ہوا کہ بیرون ملک پاکستانی اپنی رقومات بنکوں کے ذریعے نہیں بلکہ ہنڈی سے بھیجیں، چینی صدر کے دورے کو روکا گیا، ان تمام باتوں کے بعد جس جماعت نے ملک دشمنی میں آخری کیل 9 مئی کی واردات کے ذریعے کردی ہو اس سے محب وطنی کی امید ایک دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے، ہمارے ملک کا قانون اور نام نہاد اظہار آزادی، انسانی آزادی کا سہارا لیکر انہیں رہائی ملتی ہے، موجودہ عسکری قیادت، اور حکومت اپنی تمام تر کوشش میں مصروف ہے کہ حالات پر قابو پایا جائے ملکوں ملکوں گھوم کر معیشت کی بہتری کیلئے قرض لئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے تین چار سالہ دور اقتدار میں ملکی قرضوں میں اضافہ کیا جسکا حجم انکی حکومت سے قبل کی پاکستان کی تاریخ میں کل قرضہ نہیں لیا گیا، اب تو ہمیشہ سے بہترین دوست چین بھی ہماری اندورنی حالات جس میں سرحد پار دہشت گردی اہم عنصر ہے وہ بھی بالآخر چیخ پڑا ہے، اسکے انجینئر اغوا کئے گئے انہیں جان سے مارا گیا جسکے بعد چین کیلئے بھی سرمایہ کاری ممکن نہیں تھی چین کے بیانات کے بعد ایک مرتبہ پر عسکری اور سیاسی قیادت جس میں تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی شامل تھے سر جوڑ کر بیٹھ گئے، 2009ء میں سوات واقعہ جہاں افغانستان کے جنگجو قابض ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے، 2014ء میں آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی جسکے نتیجے میں اسوقت کے آئی ایس آئی کے چیف نے افغانستان کا ہنگامی دورہ کیا اور وہاں کی حکومت کو دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کا فوری مشورہ دیا، پی پی پی حکومت کے دور میں راہ نجات اور ضرب عضب آپریشن کئے گئے، دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے، مگر پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں پاکستان آنے کی دوبارہ اجازت دے دی،حالیہ ایپکس اجلاس میں آپریشن ”عزم استحکام“ کا اعلان کیا گیا، وہاں عسکری قیادت بھی موجود تھی مگر اجلاس سے باہر نکل کر اسمبلی اجلاس میں حز ب اختلاف نے واویلا مچا کر دنیا کو تماشا دکھایا جس میں خاص طور پر پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمان اور چند چھوٹی حزب اختلاف جماعتیں شامل تھیں اس عزم استحکام کو عدم استحکام بنانے کی کوشش کی گئی پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جنہیں پی ٹی آئی کی بھر پور حمائت حاصل ہے نہ جانے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسوقت فلسطین میں اسرائیلی فسطایت اسلئے زور پکڑ رہی ہے کہ فلسطین کی اپنی کوئی فوج نہیں، جو آج پی ٹی آئی یا ملک دشمن کررہے ہیں عسکری قیادت کو نشانہ بناکر علیحدگی پسند مجیب الرحمان مرحوم نے بھارت کے ساتھ ملکر افواج پاکستان اور عوام میں نفرتوں کے بیج بوئے تھے وہی کھیل آج پاکستان میں کھیلا جارہا ہے ورنہ 9 مئی کے واقعات کے واضح ذمہ داروں کو تاحال سزا نہ ملنا سمجھ سے بالا تر ہے، سزاؤں میں تاخیر، انکا اسمبلیوں میں بیٹھنا جہاں وہ اسمبلی کا اجلاس بھی نہیں چلنے دیتے، عدالتوں سے نام نہاد ثبوت نہ ہونے کی بنا پر رہائی حاصل کرلیتے ہیں افواج پاکستان کی تذلیل کرکے صرف اور صرف بھارت اور ملک دشمنوں کو خوش کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کرنا صرف اور صرف افواج پاکستا ن یا مرکزی حکومت کا نہیں بلکہ صوبوں کی بھی ذمہ داری ہے جب تک سب ملکر یہ کام نہیں کرینگے عزم استحکام کی کوششیں خدانخواستہ عدم استحکام ثابت ہونگیں پاکستان اور عسکری اداروں کی ضرورت نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی ہے، جیسا اوپر تحریر کیا گیا ہے پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران افغانستان میں پناہ لینے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو واپس پاکستان میں اپنے ٹھکانوں پر آنے کی اجازت دینے کی وجہ سے پیش آئی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں سویلین اور فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ آپریشن کے نام پر اسے بھی نشانہ بنایا جائے گا(چور کی داڑھی میں تنکا والی مثال)۔ دہشت گردی زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کا زیادہ نشانہ خیبر پختونخوا ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہ ہی کسی بھی آپریشن کے خلا ف ہیں جس سے انکی عوام کے تحفظ سے غیر سنجیدگی کا احساس ہوتاہے۔ دہشت گردی سالہا سال سے جاری ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے ضرب عضب اور ردالفساد کے نام سے پہلے بھی آپریشن ہوچکے ہیں۔ اسو قت بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کی سرکوبی جاری ہے لیکن چونکہ ان کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں اور دہشت گرد جنہیں پہلے سے آئے ہوئے تخریبی عناصر کی عملی مدد حاصل ہے وہاں سے آکر وارداتیں کرتے ہیں اس لئے ان سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر کارروائی کی ضرورت ہے ایسے میں ملک کے اندر سیاسی انتشار اور اختلاف برائے اختلاف بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ قومی استحکام، امن و امان اور دہشت گردی سے پاک ماحول ملک کی معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔سیاستدان خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، سیاسی پوائنٹ سکور نگ اور انا پرستی سے ہٹ کر مفاہمت اور ہم آہنگی کی سوچ اپنائیں اور بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے اس مشکل وقت میں مذاکرات کے ذریعے درپیش مسائل کا حل تلاش کریں۔ رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے کہ اسوقت 23 کی تعداد میں عالمی تنظیمیں افغان سرزمین کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں،جو مختلف ممالک کودہشتگردانہ کارروائیوں میں مطلوب ہیں۔ فوج کے جوان پاک سر زمین سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کیلئے دن رات آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں،اسلئے ضروری ہے کہ ماضی کی طرح ایک اور بھرپور اور ملک گیر آپریشن شروع کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.