جنرل غلام عمر کے صاحبزادے اور پی ٹی آئی کے معروف رہنما اسد عمر کے بھائی محمد زبیر نے کہا ہے کہ جب عمران خان کی حکومت گرائی جارہی تھی تواس سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ لندن میں نواز شریف کو ملے تھے اور سابق آرمی چیف کو مدت ملازمت میں ایک اور توسیع کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ محمد زبیرلندن پلان کے حوالے سے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ نون کے رہنما اور سینیٹ کے رکن عرفان صدیقی نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پانامہ کیس میں اپنی نااہلی کے بعد کبھی کسی جرنیل سے نہیں ملے اور یہ کہ بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر ایک مختصر ہی تعزیتی فون کال کے علاوہ کبھی گفتگو بھی نہیں ہوئی۔ یہاں دومعاملے ہوسکتے ہیں، اول یہ کہ محمد زبیر جھوٹ بول رہے ہوں مگر اس کے مقابلے میں دلیل یہ ہے کہ یہ خبریں تواتر سے آتی رہیں کہ محمد زبیر، جنہیں نواز شریف نے سندھ کی گورنری بھی دی تھی اور اس اہم ترین موقعے پر اپنا ترجمان بھی مقرر کیا تھا، فوجی قیادت سے کئی کئی گھنٹوں کی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں لہٰذا وہ بہت کچھ ایسا جانتے ہیں جو دوسرے نہیں جانتے۔ دعویٰ ہے کہ انہیں اس طرح معاملات طے کرنے کی ہدایت کی گئی کہ شہباز شریف کو بھی علم نہ ہو۔ دوسرا معاملہ یہ ہے کہ محمد زبیر سچ بول رہے ہیں مگرسچ بولنے کے لئے کوالیفائی کرنے پر بھی بہت سارے سوالات ہیں۔ وہ کراچی کے ہوٹل والی ویڈیو آنے کے بعد رفتہ رفتہ مسلم لیگ نون سے فارغ کردئیے گئے تھے لہٰذا وہ غصے میں ہیں اور جب ہمیں کسی کے بارے غصہ ہوتا ہے تو ہم سچ جھوٹ کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتے۔ محمد زبیرد وبارہ لائم لائیٹ میں آنا چاہتے ہیں اوراس کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کچھ نیا انکشاف کریں۔ ہمارے ہاں انکشاف محض انکشاف ہی ہوتا ہے اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کا فیصلہ اپنی سوچ اور وابستگی کے حوالے سے ہی کرتے ہیں مگر مجھے یہاں محمد زبیر سے ہٹ کے کچھ لوگ یاد آ گئے۔
اس وقت جاوید ہاشمی بھی سوشل میڈیا پر متحرک ہیں بلکہ مجھے تو اس وقت حیرت ہوئی جب میں نے ان کا یوٹیوب چینل دیکھا۔ کیا واقعی جاوید ہاشمی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی عمران خان کے بیانئے کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈالر کماسکتے ہیں۔ انہوں نے چند روز پہلے شکوہ کیا کہ نواز شریف کے حامی ان پر تنقید کرتے ہوئے یاد ہی نہیں رکھتے کہ نواز شریف اور شہباز شریف انہیں ریسیو کرنے کے لئے ائیرپورٹ پر جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیں تو مجھے ان کی یہ بات پڑھ کے ہنسی آ گئی اور جواب دیا کہ پھر آپ نے اس عزت اور احترام کی کیا لاج رکھی۔ پہلے آپ نے پی ٹی آئی جوائن کی اور پھر عمران خان کے ساتھ بھی مخلص نہ رہے۔ جب دوبارہ نواز لیگ میں آنا چاہا تواس کے لئے بھی تحمل اور تدبر کا مظاہرہ نہ کیا۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جاوید ہاشمی اور مشاہد حسین یوٹرن نہیں لیتے بلکہ بدقسمتی سے وہ ایک راؤنڈ اباؤٹ یعنی گول چکر پر ہیں۔ محمد زبیر کی ترجمانی اورجاوید ہاشمی کی جذباتیت سے مجھے زعیم حسین قادری بھی یاد آ گئے۔ بھلے دنوں میں ان کی ٹی وی پر اتنی ڈیمانڈہواکرتی تھی کہ ایک مرتبہ مجھے ایک سال میں کئے گئے کئی ہزار پروگراموں کا ریکارڈ دکھا رہے تھے یعنی ایک دن میں پانچ، پانچ اور سا ت، سات پروگرام بھی۔ ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے مگر پھر ایک مرتبہ انہیں ٹکٹ نہ مل سکی تو انہیں پتا چلا کہ لاہور حمزہ شہباز کے باپ کا نہیں ہے حالانکہ یہ دعویٰ تو مشرف اور باجوہ بھی نہیں کرسکے تھے۔ بہت عرصے سے زعیم سے رابطہ نہیں ہوا نجانے وہ آج کل کس حال میں ہیں۔ زعیم کے زمانے میں ہی سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ پنجاب کے صدر ہوا کرتے تھے۔ صوبے کے گورنر بھی رہے اور سینئر وزیر بھی۔ پھر یہ بھی ہوا کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے گورنری اور وزرات اعلیٰ دونوں ان کے گھر بھیجیں مگر سردار صاحب بھی شریف فیملی سے ناراض ہو گئے۔ وجوہات کیا تھیں وہ بہت عجیب وغریب ہیں۔ پی ٹی آئی کا ایک وکیل سردار دوست محمد کھوسہ اور حمزہ شہباز شریف میں غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا مگر وہ اکیلا تو نہیں تھا، بہت کچھ ساتھ بھی تھا۔ ابھی آپ مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی کو ہی دیکھ لیں، انہوں نے اے پی پی بنا لی ہے۔ یہ سرکاری خبررساں ایجنسی نہیں بلکہ عوام پاکستان پارٹی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، نواز شریف کی طرف سے وزیراعظم نامزد ہونے سے پہلے دوسرے درجے کی قیاد ت میں بھی پہلے درجے پر نہیں تھا مگر نواز شریف نے اپنے بھائی پر انہیں ترجیح دی۔ اس سے پہلے جب وہ مری سے ہارے تھے تو انہیں لاہور سے جتوایا گیا تھا، یاد آیا، ملتان سے ہارنے والے جاوید ہاشمی بھی لاہور سے جیتے تھے۔
یہاں دوکرداروں کا ذکر سب سے الگ ہے، ایک ہیں حضرت طاہر القادری۔ ان کی ایک ویڈیو بہت وائرل رہی جس میں وہ بتاتے تھے کہ نواز شریف اور شہباز شریف انہیں کندھوں پر اٹھا کے غالباً حج یا عمرہ وغیرہ کرواتے رہے۔ میں تب بھی سوچتا تھا کہ اچھے خاصے نوجوان ہٹے کٹے مولوی کو کندھوں پر اٹھانے کی کیا ضرورت تھی مگر شائد قادری صاحب بیمار ہوں اور یہ میاں شریف کا حکم ہو۔ ماڈل ٹاؤن کی مسجد سے شہرت اور دولت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے شریف فیملی کے ساتھ وہ کیا وہ ظرف والا دشمن بھی دشمن کے ساتھ نہیں کرتا۔ درمیان میں بہت سارے اور بھی ہیں جیسے غلام اسحاق خان،پرویز مشرف اور ثاقب نثار۔ دلچسپ تو عمران خان صاحب ہیں جو نواز شریف کے مداح ہوا کرتے تھے او ر اسی مداحی میں ان سے شوکت خانم ہسپتال کے لئے پلاٹ اینٹھ لیا اور میاں شریف سے پچاس کروڑ روپے بھی۔ یہ بھی میں ان کی ویڈیو میں ہی سنا ہے۔ کہنے والے شیر خدا اور فاتح خیبر سے ایک قول منسوب کرتے ہیں کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کے نمک میں اثر ہی نہیں ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ بہت اثر ہے، جو بھی کھاتا ہے وہ دانشور بن جاتاہے اور پھر وہ دانش اس کی شرم، حیا، وفا سب کھا جاتی ہے۔ ویسے اس معاملے کی دوسری تشریح یہ بھی کی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف کو لوگوں کی پہچان نہیں ہے۔ دلیل دی جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی نے دو وزیراعظم بنائے اور دونوں آج تک ان کے ساتھ ایلفی سے جڑے ہوئے ہیں مگر ان کے بنائے گورنر تک ساتھ نہیں۔
جمع تفری کروں، حق لگتی کہوں تو نواز شریف ان تمام بے وفاؤں کی بے وفائی کے باوجود گھاٹے میں نہیں رہے۔ شہباز شریف نے چھوٹا بھائی ہوتے ہوئے جو وفا نبھائی ہے اس نے مصر میں حضرت یوسف علیہ سلام سے لے کر گلبرگ لاہورمیں چوہدری برادران تک بھائیوں بارے لکھی تاریخ بدل کے رکھ دی ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.