ستتر برس کے بعد ہمیں ترقی یافتہ ہونا چاہئیے تھا مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا اب صوت حال یہ ہے کہ ہماری سانسیں قرضوں پر آ جا رہی ہیں ملکی معاملات نمٹانا مشکل ہو چکا ہے ٹیکس حیران کن حد تک لگائے جا رہے ہیں بجلی کی قیمت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی تو گئی ہیں مگر ان پر ٹیکس طمانچہ مار کر خزانہ بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لوگوں کو ریلیف بھی دئیے گئے ہیں مگر ایک ہاتھ دے دوسرے ہاتھ لے والی بات ہے لہذا استحکام معیشت ناپید ہے۔
ہمارے ذہین و فطین باتدبیر وزیر خزانہ نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ بڑے بڑے اداروں کو فروخت کر دیا جائے تاکہ ایک بھاری رقم خزانے میں آئے اور معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے اور خوابوں کی گاڑی رواں دواں ہو جبکہ ایسی ”اصلاحات“ نئے مسائل کو جنم دیں گی اگر حکمران چاہیں تو ہمارے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں مگر چونکہ انہیں اپنے ذہنوں پر دباؤ نہیں ڈالنا ہوتا لہذا وہ دوسروں کے دماغوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور نئی صبح کا انتظار کرتے ہیں جو ابھی تک نمودار نہیں ہوسکی۔اب جب وہ ملک کے اہم اور بڑے اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کر چکے ہیں (جو اصل میں آئی ایم ایف کا ہے) تو وہ بڑے خوش دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے عوام جنہیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے بھی خوش نظر آتے ہیں کہ چلیں عارضی طور سے ہی سہی ان کے چہروں پر رونق تو آئے گی انہیں یہ نہیں معلوم کہ اداروں کی نج کاری سے وہ مزید معاشی عدم تحفظ کا شکار بھی ہو سکتے ہیں کہ نجی اداروں کے مالکان جب چاہیں کسی ملازم کو گھر بھجوانے کا اختیار رکھتے ہیں لہذا جو بھی کوئی کسی قسم کی شکایت کرے گا یا احتجاج کرے گا نوکری سے فارغ ہو جائے گا کوئی قانون ایسا نہیں ہو گا جو ان کے روزگار کو تحفظ فراہم کرسکے گا اس وقت بھی جو پرائیویٹ ادارے ہیں ان میں کسی کارکن کو اپنی ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں مگر لوگوں کو بھی جد وجہد کرنے کی عادت نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا جبکہ ٹھیک ہونے یا کرنے کے لئے کوشش کرنا پڑتی ہے قدم بڑھانا ہوتے ہیں لہذا ہم عوام کی مجموعی سوچ کے پیش نظر کہہ سکتے ہیں کہ ”ہنوز دلی دور است“ابھی لوگوں میں وہ شعور نہیں پیدا ہوا جو روشن مستقبل کے لئے لازمی ہوتا ہے بہرحال حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں کیونکہ انہیں کسی ردعمل کا کوئی اندیشہ نہیں ان کے لئے یہ صورت حال بڑی فائدہ مند ہے وہ ایسے قوانین بھی بنا رہے ہیں جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں مگر انہیں اس کی پروا نہیں پہلے وہ کب ان کی پاسداری کر رہے ہیں پھر عوام بھی کب کوئی ہِل جْل کر رہے ہیں ٹس سے مس ہو رہے ہیں وہ اپنے اپنے پیٹ پال پروگرام میں کھوئے ہوئے ہیں
در اصل ہم لوگ کوشش کرنے سے گھبراتے ہیں لہذا وہی بات کہ مسائل ومشکلات از خود ختم ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔جس بندے سے بھی پوچھو وہ یہی کہے گا کہ میرے کچھ کہنے محسوس کرنے اور متحرک ہونے سے کچھ نہیں ہو گا لہذا اس فلوسفی کے تحت پورے ملک کا نظام چل رہا ہے اور حکمران بغلیں بجا رہے ہیں۔
جب لوگ ہی اپنے بارے میں غور نہ کریں تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ ان کے لئے پریشان ہو لہذا گاڑی اپنی زندگی کی ایسے تیسے رواں ہے ہر کوئی اپنے اپنے ”کاموں“ میں مگن ہے مگر مہنگائی بے روزگاری بجلی گیس کے بلوں میں اضافے کا رونا بھی رویا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اخلاقیات رہی نہ معاشیات اصول رہے نہ ضابطے۔بس جینے کے لئے حالات کے دھندلکوں میں لپٹ گئے۔ مصنوعی مہنگائی کرکے بنک بیلنس میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں اس کے باوجود سکون قلب میسر نہیں حکمرانوں کی طرح من مرضی کرنے لگے ہیں کوئی ناپ تول میں ہیرا پھیری کر رہا ہے تو کوئی ناجائز منافع خوری میں۔
قلم مزدوروں میں بھی بعض اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال رہے ہیں اس طرح سچے اور سْچے لکھاریوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا کہ انہیں (لوگوں)آگہی کی ندیا کے پاس نہیں بیٹھنا۔ اس طرح معاشرہ تباہی کے گڑھے میں گر چکا ہے جنہوں نے اسے باہر نکالنا ہے وہ شاداں و فرحاں ہیں کیونکہ ان کی اقتدارو اختیار اور خواب گاہوں کو کوئی خطرہ نہیں یہ دیکھ کر حساس و سنجیدہ اہل وطن آہیں بھر رہے ہیں مگر بے سود و فضول۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو ہجرت کرتے جارہے ہیں بالخصوص نوجوان جنہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے وہ ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر بس رہے ہیں مگر حکومت ان کا ادھر بھی پیچھا کر رہی ہے ایک پاسپورٹ پالیسی وضع کی جارہی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ بتایا جاتا ہے عرض یہ ہے کہ ایک اضطراب ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ ملک چلانے کے لئے جو پرائیوٹائزیشن کی جا رہی ہے اس سے ظاہر ہے ملازمین میں سراسیمگی پھیلے گی وہ تو پہلے بھی اس کے حق میں نہیں تھے اب تو بالکل نہیں اگرچہ ان کے بارے میں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ وہ بغیر رشوت کے کام نہیں کرتے مگر نجی سیکٹر کا قیام اس کا حل نہیں اصلاحات ہیں ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا ضروری ہے اس طرح نجی اداروں میں کام کرنے والے کارکنوں کو سہولتیں دی جانی چاہیں۔ چلئے! نج کاری کا تجربہ بھی کر دیکھیے ہمیں نہیں لگتا کہ اس میں کامیابی ہوگی باہر کے ملکوں میں کارکنانِ کو تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوتے ہیں عدالتیں ان پر پہرہ دیتی ہیں جہاں حکمران طبقات عوام بیزار ہیں تو وہاں عوام خود اپنے آپ سے بھی بیزار دکھائی دیتے ہیں۔
برداشت ختم‘ زندگی ویران‘ اجڑے باغ جن کے گالڑ پٹواری۔یہ ہے ہمارا سماج جو بکھر کر بھی سانپ کی طرح ”وسیں“ گھول رہا ہے۔ اور اہل اختیار یہ ”تماشا“ دیکھ رہے ہیں۔ تماشا بننے والے اب بھی جبکہ ستتر برس بیت چکے خود کو پہچان سکے نہ ہی ان کو‘ جو چالاکی سے اب تک ان پر حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں آئندہ کیا ہوگا منظر مری نگاہ میں ہے۔
حرف آخر یہ کہ جو مجموعی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اس کو درست کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ایک انقلاب برپا کیا جائے مگر اشرافیہ ایسا نہیں چاہتی عوام بھی شاید نہیں چاہتے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہاتھ نہ ہلانا پڑے اور ہر سہولت ہر آسائش کسی ٹپکے آم کی طرح ان کی جھولی میں آن گرے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.