سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ میں امام مسجد کی بے بسی اور لاچارگی عیاں،تصویر میں اس کے بچے تھے، مسجد کے جس ہجرہ میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ مقیم تھا اس کی خستہ چھت گرنے سے اللہ کے حضور پیش ہو گئے،جس وقت یہ حادثہ ہوا، امام مسجد نماز کی ادائیگی میں مصروف تھا، امکان ہے امام محترم نے بار ہا مسجد کمیٹی کو اس بابت متوجہ کیا ہو گا،لیکن درخواست کی قبولیت سے قبل ہی وہ اپنی بیوی اور بچوں سے محروم ہو گیا، اس کی مالی پوزیشن اگر اجازت دیتی توکرایہ پر اچھا مکان لیتا، اور مسجد کمیٹی کی جانب اسے نہ دیکھنا پڑتابچوں کی اس انداز میں موت کو وہ کبھی بھلانہ پائے گا۔
کہا جاتا ہے ریاست میں سب سے زیادہ قناعت پسند،سفید پوش طبقہ آئمہ کرام ہی کا ہے جوقلیل ترین تنخواہ میں اپنی گذر اوقات کرتا، اکثریت کی تنخواہ چند ہزار روپے ہوتی ہے، حالانکہ انکی ضروریات بھی عام شہری کی طرح ہیں،لیکن نہ تو انھوں نے کبھی اپنے فرائض کی ادائیگی سے انکار کیا نہ ہی انکی کوئی تنظیم ہے کہ جس پلیٹ فارم سے وہ اپنے حقوق کے لئے صدا بلند کر سکیں۔ اب سوشل میڈیا کی وساطت سے انکی پسماندگی پر عوامی حلقوں میں آواز اٹھائی جارہی ہے مطالبہ ہے کہ انکی تنخواہ اور دیگر مراعات سرکار ادا کرے،2018 میں خیبر پختون خوا میں مساجد کے اماموں اور خادمین کے لئے وظیفہ مقرر کیا گیا تھا یہ سہولت بھی صرف رجسٹرڈ مساجد اور مدارس کو میسر تھی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے آئمہ کرام کو وظیفہ لینے سے روکا جبکہ اے این پی نے انھیں مستقل ملازمت دینے کا مطالبہ کیا۔
آئمہ کرام کے بھی تین طبقات ہیں ایک محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کی وزارت کے تحت سرکاری مساجد اور مدارس،مزارات میں فرائض ادا کرتے ہیں،انہیں باقاعدہ تنخواہ ملتی انکے سکیل مقرر،تکمیل ملازمت پر پنشن کے حق دار ہیں، دوسرے آرمڈ فورسز کی مساجد میں خطیب اور خدام بھرتی کئے جاتے ہیں، انہیں بھی سویلین ملازمین کی طرح مراعات ملتی ہیں،کسی صنعت،کمپنی کی مساجد میں ملازم کے طور پر کام کرتے آئمہ کرام اور خطیب حضرات، تیسرے وہ جو عام مساجد میں نمازیوں اورمخیر حضراتد کے رحم و کرم پر ہیں، جن کی تنخواہ کا فیصلہ مسجدکمیٹی کرتی ہے۔
روایت ہے حضرت عمرؓ کسی علاقہ کو فتح کرتے تو وہاں قرآن کی تعلیم کے لئے مساجد میں آئمہ کرام کا باقاعدہ تقرر کرتے انکی تنخواہ قریباً چار تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ادا کی جاتی، حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے دور میں اسلامی ریاست میں کوئی فرد ایسا نہیں تھا جسے مالی امداد یا زکوٰۃ کی ضرورت ہو، جب خلافت نے ملوکیت کی بد ترین شکل اپنائی تو علماء سو نے جنم لیا، بعدازاں ابو الفضل اور فیضی کی صورت میں درباری علماء برآمد ہوئے، اسکی کوکھ سے فرقہ پرستی نے جنم لیا، اس کے باوجود علماء حق نے اپنا علم بلند اور تاج برطانیہ کا ناطقہ بند کیے رکھا وہ سولی پر جھول گئے مگر اسلامی شعائر پر آنچ نہ آنے دی۔
تاج برطانیہ نے مذہبی طبقہ سے انتقام لینے کے لئے اسکی سماجی حیثیت کو ہی متنازع بنا دیا دیہی علاقہ جات میں اسکی ضروریات کے پیش نظر دیگر پیشہ ور لوگوں کے ساتھ سرکاری چراگاہ میں بہت ہی معمولی زمین اس عہدہ کے نام کی جو مساجد میں پیش امام ہو گا، یوں یہ براہ راست گاؤں کے بااثر فرد کے ماتحت ہو گیا۔ مذہبی طبقہ سرکاری مراعات سے جو محروم رہا، ان خرافات کو اس نے جنم دیا جن سے روزی روٹی کمائی جا سکتی، اس میں موثر ترین پیشہ پیری مریدی کا تھا۔ایک وقت تک مولوی جی کی روٹی دیہات اور شہر میں ہر گھر سے عزت اور احترم سے پیش کی جاتی مگر اس میں تضحیک کا پہلو واضح تھا۔
برصغیر میں دینی مدارس کی تعلیمی خدمات قابل تحسین ہیں، اس سے نامور علماء کرام اور اکابرین نے فیض پایا اور عوام الناس کی راہنمائی فرمائی،تاہم اب صورت حال حوصلہ افزا نہیں، دولت کی اسیری کی جو دوڑ سماج میں جاری ہے، جید علماء کرام بھی اس لعنت سے اپنا دامن بچا نہ سکے۔ دینی مدارس عوامی تعاون سے غربا کے لاکھوں بچے اور بچیوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں جو بہت بڑی خدمت ہے مگر دوسری طر ف یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ انکی خوش حالی اور روزگار کا یہی واحدذریعہ ہے۔ایک طرف بوسیدہ ہجروں میں مقیم زندگی کی بازی ہارے والے آئمہ کرام کے بیوی، بچے تو دوسری طرف پُرتعیش محلات میں رہنے والے پیشہ ور مذہبی قائدین، نظام کا یہ تضاد اپنے اندر بہت سے سوال رکھتا ہے۔ بانی پاکستان کے شانہ بشانہ محترم مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی و دیگر اکابرین تھے، نوزائیدہ مملکت کو اسلامی، فلاحی ریاست بنانے کی شہادتیں قائداعظمؒ کے فرمودات سے ملتی ہیں، بدقسمتی سے بانی پاکستان کی وفات کے بعد وڈیروں، جاگیرداروں، گدی نشینوں کی شکل میں مفاد پرست طبقہ ملک پر مسلط ہوا، کلمہ کے نام جس گاڑی میں مہاجرین سوار ہوئے وہ دانستہ ”ڈی ریل“ کر دی گئی۔
اسلامی ریاست عملاً وجود میں آتی تو ہر سو سماجی اور معاشی انصاف ہوتا، عدل کا ڈنکا بجتا، آئمہ، علما بھی مستفید ہوتے مگر اس قماش کے لوگوں کو یہ ”سوٹ“ نہیں کرتا تھا جس میں پگڑی، جبہ، دستار والے ”پردہ نشینوں“ کے نام بھی آتے ہیں۔ محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کی وزارت مساجد و دیگر مذہبی مقامات کی کنٹرولنگ باڈی ہے، اس شعبہ کی لاکھوں ایکڑ زمین اور شہری جائیدادیں ملک بھر میں موجود ہیں، مگر المیہ یہ ہے اوقاف کی دکانوں اور مکانوں کا کرایہ کی نسبت دیگر کے مقابلہ میں 10:100 کی ہے یہی معاملہ اوقاف کی زرعی اراضی کا ہے یہ انتہائی کم لیز پر ہر علاقہ کی بااثر شخصیات کے زیر قبضہ پر ہے، اس پراپرٹی کا مقصد تو مذکورہ طبقہ کی فلاح تھی اور ان مقامات کا تحفظ تھا جو اس شعبہ کے زیر اہتمام ہیں، مگر یہ محکمہ بھی بدعنوانی کا گڑھ بن چکا ہے۔
عالم دین، مفتی کے پاس اِس امام مسجد کی اشک شوئی کے لئے الفاظ ہیں، جس کا خاندان اس فرسودہ نظام کی بھینٹ اس لئے چڑھ گیا کہ وہ مذہب کو فروخت کر نے کا فن نہیں جانتا تھا، ریاست جس کے آئین میں بلا امتیاز ہر شہری کے حقوق یکساں رقم ہیں اسکے بچوں کی موت کا اس کے پاس کیا جواب ہے؟ پیشتر اس کے کسی اور امام کے بچوں کی موت اس طرح ہو، اوقاف پراپرٹی کو ایسے آئمہ کرام کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے تصرف میں لایا جائے جو بوسیدہ ہجروں میں فیملی کے ساتھ مقیم ہیں اور ملکی سطح پر ہر امام اور موذن مسجد کی تنخواہ اور تقرر کا طریقہ مقرر کیا جائے جو فورسز کی مساجد کے لئے نافذالعمل ہے۔
تبصرے بند ہیں.