ویل ڈن مریم نواز!!

92

اللہ کا شکر کہ عید الاضحی خیر و عافیت کیساتھ گزر گئی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جانور قربان کئے۔اہل پاکستان نے بھی عید کے تہوار کو روائتی مذہبی جوش و جذبے کیساتھ منایا۔ ملک بھر میں لاکھوں جانوروں کی قربانی ہوئی۔ ہر ایک نے اپنی استطاعت اور توفیق کے مطابق جانور قربان کئے۔ اللہ کے وہ بندے بھی ہیں جنہیں اللہ نے اس قدر نواز رکھا ہے کہ وہ ہر سال سینکڑوں جانور قربان کرتے اور مستحقین میں تھیلے بھر بھر کے گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ عید قربان کے دنوں میں صفائی ستھرائی کے انتظامات یقینی بنانا ایک نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔گلی، محلے، بازاروں اور شاہراہوں پر جانوروں کی الائشوں اور گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ اگرچہ دین اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود عوام الناس اس ضمن میں کوتاہی کے مرتکب ہو تے ہیں۔ جانوروں کی آلائشیں مخصوص مقامات کے بجائے گلی محلے میں پھینک دی جاتی ہیں۔ بسا اوقات عام شہریوں کے لئے یہ الائشیں اٹھانا اور ٹھکانے لگانا واقعتا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ بھاری بھرکم الائشیں اٹھا کر مخصوص پوائنٹ تک ڈھو کر لے جانا حقیقتا ایک دقت طلب امر ہے۔ گوشت کی تقسیم اور عید کی دیگر مصروفیات اس کام کو مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔ اس صورتحال میں صفائی کے انتظامات کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں پر نافذ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں حکومت پنجاب داد کی مستحق ہے۔ صوبہ پنجاب میں عید کے دنوں میں صفائی کے عمدہ انتظامات دیکھنے کو ملے۔ڈیوٹی پر متعین عملے نے بروقت الائشوں کو اٹھا یا اور ٹھکانے لگایا۔ عید کے تینوں دن سڑکوں، گلیوں، شاہراہوں وغیرہ کو عرق گلاب ملے پانی سے دھویا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر میں 18 لاکھ سے زائد جانور قربان کئے گئے۔ ان کی الائشیں ٹھکانے لگانا۔ خون کے دھبے دھونا اور بدبو کا خاتمہ کرنا آسان کام نہیں تھا۔ اندازہ کیجئے کہ ڈیڑھ لاکھ ٹن سے زائد مقدار میں جانوروں کی گندگی، ان کی باقیات، اور الائشوں وغیرہ کو ہزاروں مقامات سے اٹھا کر مخصوص پوائنٹس پر منتقل کیا گیا۔ اس ضمن میں بھاری بھرکم مشینری کا استعمال کیا گیا۔ ہمارے ہاں یہ رواج بھی عام ہے کہ جانورو ں کی الائشیں اور باقیات دھڑا دھڑ نہروں، نالوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ اس سے ندی، نالے بلاک ہو جاتے ہیں۔ گندگی سے جراثیم اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس مرتبہ نہروں، ندیوں اور نالوں کی خصوصی نگرانی کا انتظام تھا۔ ڈرون کی مدد سے ہونے والی نگرانی کی وجہ سے نہروں میں بہائے جانے والی گندگی میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس ضمن میں سخت ہدایات کر رکھی تھیں۔ جو لوگ مریم نواز شریف کو جانتے ہیں، وہ آگاہ ہیں کہ وہ جس کام کو کرنے کی ٹھان لیں، اسے مکمل کر کے دم لیتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے عید سے پہلے امن عامہ کو یقینی بنانے اور صفائی کے انتظامات کے حوالے سے طویل میٹنگز کیں۔ عید کی چھٹیوں کے دوران بھی وہ ان دونوں معاملات کی نگرانی کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید کے دنوں میں امن عامہ کے معاملات کنٹرول میں تھے اور صفائی کے بھی اچھے انتظامات دیکھنے کو ملے۔ الائشیں بروقت اٹھائی گئیں۔ انہیں ٹھکانے لگایا گیا۔ سڑکوں کو دھویا گیا۔ ان پر عرق گلاب ملے پانی کا چھڑکاو کیا گیا۔صفائی ستھرائی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سیاسی ناقدین سمیت، جن دوست احباب سے بات ہوئی، انہوں نے حکومت پنجاب کی تعریف کی۔ اس قدر شدیدگرمی میں یہ کام آسان نہیں تھا۔ سرکاری اور پکی نوکری والے ملازمین سے بروقت کام کروانا یوں بھی نہایت مشکل امرہوتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ عملے نے یہ کام خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ اس اچھی کارکردگی پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عید کے تین روزہ صفائی مہم میں شامل عملے کو شاباش دی۔ انہیں پیغام دیا کہ آپ نے پنجاب کے عوام کے لئے صاف ستھرا پنجاب کی مہم کامیاب بنا کر تاریخ رقم کی ہے۔ آپ کی خدمت قابل تعریف ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے وزیر بلدیات ذیشان رفیق، میونسپل اداروں، ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں، ضلعی انتظامیہ کی ٹیموں اور عملے، کو سراہا۔ مریم نوازنے صفائی مہم میں شامل عملے کے لئے ایک ماہ کی تنخواہ بطور انعام دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس انعام سے یقینا عملے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو شاباش دی اور صفائی کے عمدہ انتظامات یقینی بنانے پر انہیں اور ان کی ٹیم کو مبارک باد پیش کی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ شدید ترین گرمی میں عملے نے جس محنت سے کام کیا، وہ قابل تعریف ہے۔ آپ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ایک اچھی بات یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی کے حوالے سے بھی کڑی نگرانی کا حکم جاری کیا تھا۔ عید کے دنوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں کی بھی نگرانی کی گئی۔ عوام الناس کو سہولت پہنچانے کے اقدامات یقینی بنانے پر ویل ڈن مریم نواز۔ دعا ہے کہ آپ پنجاب کے عوام کو تعلیم، صحت، امن عامہ، مہنگائی جیسے معاملات پر بھی ریلیف پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں۔ آمین۔

عید کے خوشیوں بھرے دنوں میں ٹریفک حادثات کی اطلاعات سے نہایت دکھ ہوا۔ مختلف حادثوں میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 34 شہری جاں بحق ہو گئے۔خیال آتا ہے کہ عید کے دن ہونے والے ان سانحوں سے رخصت ہو جانے والوں کے گھر والوں پر کیا قیامت گزری ہو گی۔ سعودی عرب سے بھی خبریں آئیں کہ گرمی کی وجہ سے کم و بیش 920 حجاج کرام انتقال فرماگئے۔ ان میں 35 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ عید کے دنوں میں خیبر پختونخواہ سے ایک نہایت افسوسناک خبر موصول ہوئی۔سینئر صحافی اور لنڈی کوتل پریس کلب کے سابق صدر خلیل آفریدی کو خیبر سلطان خیل کے علاقہ میں تاک میں بیٹھے افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔سنتے ہیں کہ خلیل آفریدی 2 گھنٹے تک بے یار و مددگار زخمی حالت میں تڑپتے رہے۔ پولیس مدد کو آئی نہ کوئی اور ادارہ۔ صحافی برادری اس اندھے قتل کی واردات پر سراپا احتجاج ہے۔ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ مقتول صحافی کے قاتلوں کی نشاندہی کرئے۔ لیکن ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے اس کی امید کم ہی ہے۔ یہاں پر صحافیوں کے قاتل کب پکڑے جاتے ہیں؟۔ بس دعا کی جا سکتی ہے کہ حکومت اور مقتول صحافی کے صحافتی ادارے کو توفیق ملے کہ وہ خلیل آفریدی کے بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھائے۔

تبصرے بند ہیں.