سماج کے بدلتے رنگ‘ یہ کیا سے کیا ہو گیا؟

94

 

بجٹ پر کیا لکھنا کہ یہ کبھی بھی عوامی امنگوں پر پورا نہیں اترا بڑے لوگ دن دگنی رات چوگنی اور اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں اس حوالے ہی سے ہمیشہ پیش کیاجاتا رہا ہے پھر اسے جو لوگ تیار کرتے ہیں یا ترتیب دیتے ہیں وہ عوامی کم آئی ایم ایفی زیادہ ہو تے ہیں لہذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ بجٹ انتظامی ہے عوامی ہرگز نہیں کہ جس میں لوگوں کو وہ ریلیف نہیں ملے جو وہ چاہ رہے تھے مگر کہتے ہیں کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ بہتر ہوتا ہے بس یہی سلسلہ ہے جو ستتر برس سے چلا آرہا ہے شاید آئندہ بھی یہ اسی طرح چلتا رہے گا مگر ارتقائی عمل جو سماج پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ ابھی جو تھوڑا بہت انسانی ہمدردی کا جذبہ کسی میں پایہ جاتا ہے وہ بھی ناپید ہو جائے گا؟
قارئین کرام! ہم دیکھ رہے ہیں کہ دھوکا دہی مکاری عیاری اور ریاکاری اس قدر عام ہیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔پچانوے فیصد لوگ مفادات کی خاطر اصولوں اور اخلاقیات سے دور جا چکے ہیں کسی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے طرز عمل سے کوئی کیا سوچے گا کیا محسوس کرے گا؟
آپ کے قریبی دوستوں میں سے بعض ایسے ہوں گے کہ جن کے ساتھ آپ کھاتے پیتے بھی ہوں گے چلتے بھی اکٹھے ہوں گے وہ آپ کی تعریف بھی خوب کرتے ہوں گے مگر وہ آپ کی پیٹھ پیچھے آپ کا مذاق بھی اڑاتے ہوں گے ان میں سے کوئی ایک آدھ ایسا بھی ہو گا کہ اگر کبھی اسے کسی چیز کی خریداری کے لئے ساتھ لے جائیں تو وہ دکاندار سے مل جائے گا تاکہ اس سے اپنا کمیشن وصول کر سکے۔
یقین کیجیے گا ہم ایسے تجربات سے گزر چکے ہیں کسی کو کسی شخصیت سے متعارف کروا دیں تو وہ اسے کہے گا کہ بس وہی سب کچھ ہے میرے پہلو میں بیٹھا ہوا شخص تو ”ریلو کٹا“ ہے اور وہ اپنی ایسی گفتگو سے یہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ اس کے پلے میں کچھ نہیں؟
عرض کرنے کا مقصد ہم لوگ سماجی سیاسی اور معاشی طور سے ایک گہری کھائی میں گر چکے ہیں اور انسانیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے پیٹ کی پوجا کرنے لگے ہیں اور اسے بھرنے کے لئے انسانی قدروں کو بْری طرح سے پامال کر رہے ہیں نتیجتاً قومی جذبہ اور قومی معیشت دونوں گھائل ہیں۔دراصل ہمارا سیاسی نظام جس نے اجتماعیت کو فروغ دینا ہوتا ہے اور لوگوں کو اپنے قومی فرائض سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں ادا کرنے کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے وہ کمزور پڑ چکا ہے اسے مفادات کی دیمک لگ چکی ہے لہذا اسے توانا بنانے کی اشد ضرورت ہے اس میں جہاں اہل اقتدار کی ذمہ داری ہے تو وہاں عوام کی بھی ہے مگر جب تک حکمرانوں کی طرف سے اس بات کا یقین نہیں دلا دیا جاتا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے کسی صورت غافل نہیں رہیں گے خدمت خلق کو بہر صورت یقینی بنائیں گے عوام آگے نہیں آئیں گے مگر سوال یہ ہے کہ عوام کی جو عادات تبدیل ہو چکی ہیں کہ اپنی ذات سے آگے نہیں سوچنا چالاکی و ہوشیاری سے معاملات زندگی نمٹانا ہیں تو اوپر سے لاکھ تبدیلی آ جائے کچھ نہیں ہو سکتا۔
اب ایک شخص جس کے ہاتھ میں قلم ہے وہ اس سے انصاف نہیں کرتا اس سے لوگوں کی دل آزاری کرتا ہے اور اس کو فقط ذریعہ معاش بناتا ہے تو وہ بھی معاشرے کی خدمت سے پہلو تہی کرتا ہے۔
وہ شخص جو ملاوٹ کرتا ہے کھانے پینے کی چیزوں کو قدرتی ذائقے اور غذائیت سے محروم کرتا ہے وہ انسانی صحت پر براہ راست منفی اثرات مرتب کرتا ہے یہ جرم ہے اور یہ جرم مغرب یورپ اور چین میں ناقابل معافی سمجھا جاتا ہے جس کی سخت سے سخت سزا ہوتی ہے مگر یہاں تو ڈنکے کی چوٹ پر دودھ سے لے کر مرچ مصالحوں تک میں ملاوٹ کی جاتی ہے محکمے موجود مگر نتائج صفر۔ سب ملے ہوئے ہیں بھتہ لیتے ہیں اور مبینہ طور سے کالی بھیڑوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔اسی طرح تھانے ہیں جہاں مظلوموں کی داد رسی ہونی چاہیے مگر ان میں ان کی چھترول کی جاتی ہے انہیں ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے جس سے سائل مایوس ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ یہاں آیا ہی کیوں؟
ہمارے میڈیا کا کردار بھی متزلزل دکھائی دیتا ہے اگرچہ سوشل میڈیا کچھ نہ کچھ دکھا اور بتا رہا ہے مگر اہل اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی لہذا وہ بھی محتاط انداز سے چل رہا ہے ویسے سوشل میڈیا پر سنسنی و افراتفری کا بھی سبب بن رہا ہے جس کا جی چاہتا ہے وہ یو ٹیوب چینل بنا لیتا ہے ایک آدھ ایڈٹ کرنے والا تنخواہ پر رکھ لیا اور پھر کام چالو۔انہیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ شتر بے مہار نہیں ہونا ویسے حکومت پنجاب نے ہتک عزت کا قانون پاس کروا لیا ہے جس پر صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں معذرت کے ساتھ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر تنقید برائے اصلاح ہوتی ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے جو لوگ ذاتی طور سے متاثر ہوں یعنی کوئی کسی بات پر خفا ہو اور کسی کی پگڑی اچھالتا ہے اور حقائق سے ہٹ کر بات کرتا ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ایسا شخص جو نہ صحافتی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہو جس کی معلومات ادھوری ہوں مطالعہ سے کوسوں دور ہو اور ملک وقوم بارے دماغ پر بوجھ ہی نہ ڈالتا ہو اسے تو صحافی ہی نہیں کہنا چاہیے لہذا جب وہ کسی کو رسوا کرنے اور اس کی تضحیک کے نقطہ نظر سے چند جملے رقم کرے یا بولے تو اس سے باز پرس ہونی چاہیے۔
ہمیں تو اساتذہ نے کبھی بھی کسی کی دل آزاری اور پگڑی اچھالنا نہیں سکھایا وہ صرف اور صرف ملک و قوم کی تعلیم و تربیت اور ہم تعمیر و ترقی کے لئے ہی قلم کو جنبش دینے کا کہتے کتابیں پڑھنے پر زور دیتے اور بتاتے کہ فلاں فلاں پڑھو مارکیٹ میں نئی کتاب آتی تو خرید نے کا کہتے!
بہر حال حقائق بیان کرنے اور جائز تنقید کرنے والوں کے گرد شکنجہ نہیں کسا جانا چاہیے جو ذاتی مفاد کے لئے تنقید کریں ان سے استفسار بے شک کیا جائے مگر کوئی سزا تب بھی نہیں دی جانی چاہیے اس کی اصلاح کی جائے!
حرف آخر یہ کہ ہم آئندہ بھی اہل اختیار کی توجہ سماجی خرابیوں کی طرف دلاتے رہیں گے اگرچہ ہمارے بہت سے لکھاری دوست مسائل سے متعلق لکھنا زیادہ پسند نہیں کرتے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ان ہی خرابیوں کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ تباہ حال ہے اور لگتا ہے کہ ایک روز ہم جدا جدا ”ڈکو ڈولے“ کھا رہے ہوں گے بلکہ کھا رہے ہیں اور آنکھوں میں نفرت کے بگولے صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.