مٹھی میں بند ریت

119

ہمارے معاشرے میں جو چیز سب سے زیادہ بیوقعت اَور فالتو ہے، وہ وقت ہے۔ وقت کی کسی جگہ، کسی کے ذہن میں کوئی قدر نہیں ہے۔ لوگ چار بجے آنے کا وعدہ کرکے چھ بجے پہنچتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر جو چیز سب سے زیادہ ذلیل ہوتی ہے وہ وقت ہی ہے۔عام دِنوں میں بھی بہت کم اَیسا ہوتا ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے۔ ریل گاڑی وقت پر چلتی ہے اَور نہ ہی وقت پر پہنچتی ہے۔ زیادہ تر ہوائی جہازوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بسیں بھی آپ کو ہمیشہ دیر سے ہی پہنچاتی ہیں۔

دور کیوں جائیں، میرے اَپنے دوستوں میں چند ایک اَیسے ہیں جو کبھی بھی وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ جو وقت دِیا ہوتا ہے وہ کبھی اس پر نہیں آتے۔ آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ تاخیر سے آنا ان کے لیے عام بات ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ اگر میں یہاں ان کے نام لے دوں تو وہ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے کہ میں نے ان کی بیعزتی کردی ہے۔ لیکن اپنی عادت بدلنے کے لیے وہ تیار نہیں ہوں گے۔ وقت کی اِسی بیقدری کی وجہ سے سفر کے علاوہ جو کام ہمارے یہاں نہایت تکلیف دہ بن چکا ہے وہ مکان بنوانا یا اس کی مرمت کروانا ہے۔ ٹھیکے دار، مزدور، راج، الیکٹریشن، کارپنٹر، پینٹ کرنے والے غرض ہر ایک اَیسا ہے کہ وہ کبھی وقت کی پابندی نہیں کرتا۔ جو وعدہ کیا ہوتا ہے اسے کبھی وفا نہیں کرتا۔ میرے اَپنے ایک دوست ٹھیکے داری کا کام کرتے ہیں۔ وہ بھی اِنھی عادات کے حامل ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اَیسا کیوں ہے۔ اِس کی جو وجہ بظاہر سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم بے عمل لوگ بن چکے ہیں۔ ہمارے نزدِیک دنیاوی کاموں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ ہم میں سے اکثر اِسے گمراہی سمجھتے ہیں کہ اِنسان دنیاوی کام کے بارے میں فکرمند ہو۔ وہی مسلمان جسے نماز کی پابندی کے لیے وقت کی پابندی کرنا لازمی ہے، دنیاوی کاموں میں کبھی وقت کو اَہمیت نہیں دیتا۔ ہماری آبادی کا شاید صرف بیس فی صد حصہ ہی نماز اَدا کرتا ہے۔ اسی فیصد کا اِس عبادت سے واسطہ جمعے کے جمعے یا بعضوں کے معاملے میں عید کے عید پڑتا ہے۔ یہ عبادت بہت ساری چیزوں کی طرح وقت کی پابندی بھی سکھاتی ہے۔ لیکن ہماری آبادی کا ایک فیصد بھی اَیسا نہیں ہے جو واقعی وقت کی پابندی کرتا ہو۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے لیے عبادات بھی محض رسومات ہیں۔ ہم اِن سے کچھ نہیں سیکھتے اَور دراصل اَپنے عمل سے یہ کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ نے یہ عبادات یونہی بیکار میں فرض کردی ہیں۔ اسے شاید ہماری نمازوں کی ضرورت ہے۔ حالانکہ یہ سب کام دراصل ہماری تربیت اَور دْنیا اَور عاقبت بہتر بنانے کے لیے کیے گئے ہیں۔

جو قومیں ترقی کرگئی ہیں اْن کی اطوار پر نظر دوڑائیں تو جو باتیں نہایت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں اْن میں ایک وقت کی پابندی بھی ہے۔ اْن کے یہاں سیکنڈوں کے حساب سے لوگ وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ ریل گاڑی عین وقت پر پہنچتی ہے۔ بس بھی عین وقت پر اپنے اسٹاپ پر آتی ہے۔ لوگ وقت پر سوتے اَور وقت پر اٹھتے ہیں۔ دفتر عین وقت پر پہنچتے ہیں۔ ہمارے یہاں، خاص طور پر، سرکاری دفاتر میں دفتر لگنے کے وقت صفائی کرنے والے جھاڑو دینا شروع کرتے ہیں۔ صاحب ایک ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہی آتے ہیں۔ لیکن وہ وقت کی پابندی کرنا بیحد پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ صبح دفتر آتے ہوئے وقت کی پابندی نہ بھی کرسکیں تو بھی وہ اِس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ چھٹی کے وقت ضروروقت کی پابندی کی جائے۔

وہ پاکستانی جو کسی وجہ سے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں، وہ بالکل اْسی طرح وقت کی پابندی کرنا سیکھ جاتے ہیں جیسے کہ مغربی ممالک کے لوگ کرتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کے بغیر وہ اس سسٹم میں چل ہی نہیں سکتے۔ وہی لوگ جب چند سالوں کے بعد پاکستان واپس آتے ہیں تو اْن کے لیے یہاں زندگی گزارنا عذاب بن جاتا ہے۔ ہر طرف جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، وعدہ خلافی اَور وقت کی بیقدری کا دور دورہ ہے۔ باہر سے آنے والا پریشان ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح رہ رہے ہیں۔ یہ ملک کس طرح چل رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے لیے یہ ایک عام بات ہے کہ وہ کسی سرکاری دفتر میں جائیں اَور پتاچلے کہ ابھی صاحب نہیں آئے ہیں۔ وہ کئی گھنٹے اِنتظار میں بیٹھے رہیں۔ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کے دفتر میں اگر آپ کوکوئی کام پڑ گیا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سمجھ لیں کہ آج آپ کچھ اَور نہیں کرسکیں گے۔وہاں ہرعمل چیونٹی کی رفتار سے چلتا ہے اَور کسی کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ باہر موجود لوگوں کا وقت بھی قیمتی ہے۔

سرکاری اِداروں ہی پر موقوف نہیں، پرائیویٹ اِداروں میں بھی یہی حال ہے۔ وہ لوگ بھی تو اِسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ پرائیویٹ کلینک پر ڈاکٹر کبھی وقت پر نہیں آتا، دْوسرے افراد بھی جس وقت کا وعدہ کرتے ہیں، کبھی اس پر نہیں پہنچتے۔ لگتا ہے کہ یہاں کسی کو کسی کے وقت یا مصروفیت کی کوئی فکر نہیں ہے۔ زیادہ بڑا جرم یہ ہے کہ یوں تاخیر سے آنے پر کسی کو شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔ وہ نہایت معصومیت سے کہہ دیتا ہے کہ ہاں ذرا سی دیر ہوگئی۔ شادی کے کارڈ پر لکھے ہوئے وقت پر اگر کوئی شادی ہال میں پہنچ جائے تو اس سے کرسیاں لگوانے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ کراچی شہر میں ایک شادی میں شرکت کا اِتفاق ہوا تو وہاں ہمارے شور مچانے پر رات بارہ بجے کھانا شروع ہوا۔ مہمان ہی دس بجے سے آنا شروع ہوتے ہیں۔

زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی کسی ایمرجنسی مصروفیت کی وجہ سے وقت پر نہ پہنچ سکے تو ایک وقت یہ سوچا جاسکتا ہے کہ بیچارہ مجبور تھا۔ لیکن ایسی ایمرجنسی کتنے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے؟ ہم نے سوچ لیا ہے کہ گھڑیاں صرف شوبازی کے لیے پہننی چاہئیں۔ گھڑی کا مقصد لوگوں کو ان کی اَور اَپنی اوقات بتانا ہے، وقت دیکھنا نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی اَیسا ہو جو یہ سوچتا ہو کہ اگر اس نے آٹھ کلومیٹر دور جانا ہے تو دِن کے اْس وقت میں کتنی ٹریفک ہوگی اَور اسے کتنے بجے گھر سے نکلنا چاہیے۔ وہ آرام سے کھاپی کر،سارے کام نمٹا کر، ٹیلی فون پر بیکار کی کالیں کرکے، سوشل میڈیا پر وقت گزارنے کے بعد یہ سوچے گا کہ اچھا اَب چلنا چاہیے۔ دوسری طرف جو شخص ہے وہ بیشک اِنتظار میں گھل کر پانی ہوجائے، ہمیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ اگر کسی وجہ سے ہم لیٹ ہورہے ہوں تو یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ بھئی میں ذرا مصروف ہوں، اَب چھ بجے کے بجائے چھ بج کر بیس منٹ پر پہنچوں گا۔ اِن بنیادی آداب سے بھی ہم بالکل بیبہرہ ہوچکے ہیں۔

اِس ساری گفتگو سے یہ پتاچلا کہ ہمارے یہاں اسکول، کالج اَور گھروں میں وقت کی پابندی کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔ یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے۔ اِس زندگی میں اِنسان کا اصل سرمایہ تو وقت ہی ہے۔ ایک دِن یہ وقت ہی ہوتا ہے جو اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ ہم نے اِس سب سے قیمتی سرمائے سے بالکل آنکھیں بند کرلی ہیں۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ ہم تنزلی کی طرف گامزن ہوگئے۔ کام کرنے کی لگن، کچھ کردِکھانے کی جستجو، آگے بڑھنے کا جنون، سب ختم ہوگئے۔ اَب ہم آرام سے اٹھتے ہیں، ٹہلتے ہوئے تیاری کرتے ہیں اَور کبھی نہ کبھی کام پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ دِن میں اگر آٹھ گھنٹے کام ہونا چاہیے تو ہمارے یہاں تین سے چار گھنٹے ہی ملتے ہیں کوئی مفید کام کرنے کے لیے۔ ہم نے یہ بات سمجھی ہی نہیں وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح ہوتا ہے، جو آہستہ آہستہ گرتی رہتی ہے۔ جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، جلد یا بدیر ان کی مٹھی خالی ہوجاتی ہے۔ ترقی کرنے، آگے بڑھنے، کچھ کردِکھانے کے لیے جس عادت کا ہونا ازبس ضروری ہے وہ وقت کی پابندی ہے۔ جن میں یہ عادت پائی جاتی ہے وہ آج بامِ عروج پر پہنچے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں صرف جنت کے خواب ہیں۔ ہماری دنیا بھی خراب ہے اَور عاقبت بھی برباد۔

تبصرے بند ہیں.