مافیا ٹیکس نیٹ سے پھر بچ گیا

94

بہت شور سنتے تھے، اس نئے بجٹ کا، امیدیں خاک ہوئیں۔ بجٹ تو پیش ہو گیا، اس موقع پر نظر آنے والے سب منظر پرانے تھے، اپوزیشن کا پارلیمنٹ کے اندر شور شرابا، سپیکر کا گھیراؤ کرنا، اسے ڈرانا اور وزیراعظم پاکستان کو خونحوار نظروں سے دیکھتے ہوئے تاثر دینا کہ آج اسے کسی صورت سلامت گھر نہ جانے دیں گے۔ حکومتی ارکان کا وزیراعظم کے گرد حفاظتی حصار بنا کر انہیں یقین دلانا کہ ہم ”شین“ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اپوزیشن ارکان کی طرف سے بجٹ دستاویز کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے سپیکر کے سر پر یوں پھینکنا جیسے من پسند رقاصہ کے دوران رقص اس پر حق حلال کی کمائی کے نئے نوٹ نچھاور کئے جاتے ہیں۔ اب بجٹ پر دھواں دھار بحث کے مناظر رنگ محفل دوبالا کر دیں گے۔ آئندہ اجلاسوں میں جذباتی مکالمے، فیض، ساحر، جالب اور فراز کی شاعری سے منتخب کلام بننے کو ملے گا جب کہ اختتامی سیشن میں جناب حبیب جالب کی خون جگر سے تحریر کردہ اور جناب وزیراعظم کی پسندیدہ انقلابی نظم ”میں نہیں مانتا“ سنی جا سکے گی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو اپنے چیمبر میں موجود تھے، حکومتی ارکان اسمبلی انہیں منانے کیلئے ان کے پاس گئے، وہ اٹھے اور یہ کہہ کر چل دیئے کہ وہ تو گھر جا رہے ہیں، ان کی گھر والی تو ہے نہیں، جانے گھر جانے کی جلدی کیوں تھی۔ پیپلزپارٹی یہ تاثر دینے میں کامیاب رہی کہ ان سے بجٹ کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی لہٰذا انہوں نے بجٹ اجلاس میں شریک ہونا مناسب نہ سمجھا۔ یہ شکایت تو بعض لیگی زعماء بھی کرتے نظر آئے کہ ان سے بجٹ مشاورت نہیں کی گئی، عین ممکن ہے مستقبل میں وہ لوگ بھی یہی کچھ کہتے نظر آئیں جنہوں نے بجٹ پیش کیا ہے، بجٹ کیسے پاس ہوگا یہ وہ جانے اور ان کا کام جانے جنہوں نے بجٹ بنایا ہے، ملک میں پہلی مرتبہ بجٹ کی جان کے لالے نہیں پڑے۔ یہ منظر بھی بہت پرانا ہے۔ بجٹ کے حوالے سے ایک بات بہت اہم ہے وہ یہ کہ اگر عددی نکتہ نظر سے بجٹ پاس نہ ہو تو بجٹ کے ساتھ ساتھ حکومت بھی فیل ہو جاتی ہے۔ اسے تینتیس نمبر دے کر رعایتی پاس نہیں کرایا جا سکتا، ابھی تک ایسا ہوا تو نہیں ہو گیا تو پھر کچھ نیا ہوگا۔

بجٹ پیش کرنے سے قبل دس روز تک ایک مہم جاری نظر آئی جس کا مقصد عوام کو باور کرانا تھا کہ ملک میں ہر چیز سستی ہو گئی ہے، مقصد شاید یہ تھا کہ جب مزید ٹیکس لگائے جائیں تو قوم انہیں ہنسی خوشی قبول کر لے کہ اتنے سستے زمانے میں کچھ نئے ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں تو کوئی قیامت نہیں آئی، اسے حکومت کی طرف سے انعام سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے۔ اس پر سر دھننا چاہئے۔

گندم کی قیمت کم ہونے کا کریڈٹ لیا جا رہا ہے جبکہ گندم خریدنے یا نہ خریدنے کے فیصلے سے بہت پہلے ناامید ہو کر کسان اپنی گندم اونے پونے بیچ بیٹھے تھے۔ بارشیں سر پر تھیں، گندم کو کھلے آسمان تلے رکھ کر سو فیصد نقصان کے بجائے دس نقصان اٹھانا بہتر جانا گیا، درآمدی گندم گوداموں میں ہوتے ہوئے گندم سستی ہو گئی، یوں آٹا سستا ہو گیا۔ انہی ایام میں گرمی اس قدر پڑی کہ پولٹری فارمز میں مرغی مرنے لگی۔ سوشل میڈیا نے گرمی اور حبس کے سبب مرغی کے مرنے کے مناظر دکھائے۔ فارمز نے مرغی کے مرنے کے سو فیصد نقصان سے بچنے کیلئے اپنا مال کم منافع پر اٹھوا دیا۔ گرمیوں میں مرغی کی کھپت موسم سرما کی نسبت کم ہوئی ہے۔ عیدالاضحیٰ کی آمد کے پیش نظر قوم چکن کھانا چھوڑ کر مٹن کی منتظر ہوتی ہے لہٰذا مرغی کا خریدار مزید کم ہو جاتا ہے، مرغی سستی ہو گئی۔ اس میں سرکار کا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو جب ہوتا جب چینی، پتی، گھی، پٹرول سستے کئے جاتے، کرائے کم ہوتے تو یقین آ جاتا کہ سابق حکومتوں کی تباہ کردہ معیشت میں بہتری آئی ہے، معیشت میں بہتری کا سادہ سا اشارہ ہے کہ بہتری آنے کے بعد ٹیکسوں میں چھوٹ دی جاتی ہے۔ ہوشربا اضافہ نہیں کیا جاتا، ریلیف دیا جاتا ہے، ٹیکس سفارشات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے پچاس ہزار آمدن ماہانہ رکھنے والے کو طبقہ امراء میں شامل کر لیا ہے اور اس کی ماہانہ آمدن پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ہے، رہائش کیلئے بنائے گئے فلیٹ میں خریدار کے پاؤں تلے زمین ہوتی ہے نہ وہ آسمان پر نظر ڈال سکتا ہے۔ رہائش کے نام پر بنائے گئے مرغی کے ڈربوں کو فلیٹ کہتے ہیں، اب فلیٹ خریدنے والے بھی زیادہ ٹیکس دیں گے۔ اس خبر کے ساتھ فلیٹوں کی خرید کیلئے منصوبہ بندی اور قرضوں کا انتظام کرنے والوں کو بہت دکھ ہوا ہے۔ اب تو محاورتاً ان کے پیروں سے زمین نکل گئی ہے، وہ تو پہلے ہی ہوا میں معلق تھے اب کہاں جائیں گے، یہ سوچ کر ان کی نیندیں اڑ گئی ہیں، اب تو ایک ہی ٹھکانا ہے وہ دوگز زمین ہے۔ وہ بھی اس قدر مہنگی کہ غریب آدمی مرنا بھی چاہے تو اسے سو مرتبہ سوچنا ہوگا بعض لوگوں نے یہ سوچ کر خودکشی کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ فوراً متوجہ ہوں گے، ان کے گھر تعزیت کیلئے آئیں گے۔ ہمراہ پانچ دس لاکھ کا چیک لائیں گے۔ جس سے سر پر چڑھا قرض اتر جائے گا اور کفن دفن کا انتظام ہو جائے گا۔ جن جنازوں پر جناب وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ نہیں پہنچ پاتے وہ بیچارے مر کر رسوا ہوتے ہیں۔ پہلے روز میڈیا میں ایک سنگل کالم خبر چھپتی ہے، خودکشی کا سٹائل بہت دردناک ہو تو کچھ میڈیا کیمرے کچھ یوٹیوبر بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن ٹھیک دوسرے روز وہ نئی سٹوری کی تلاش میں کسی اور طرف کا رخ کر جاتے ہیں۔ پرانی سٹوری کے مرکزی کرداروں کی ٹریجیڈی سٹوری میں ان کے لئے نیا مسالا نہیں ملتا، پھر ان کی توجہ کا مرکز ہی خودکشی، نہر میں گرنے والی نئی بس اور گھر سے بھاگنے کے بعد آشنا سے بیاہ رچانے سے قبل دھر لی جانے والی نئی لڑکی ہوتی ہے، اب تو ٹی وی پر مختلف مقدمات کی دکھائی جانے والی براہ راست کوریج میں بھی عوامی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ ہر آنکھ میں اور ہر طرف پاپی پیٹ کا سوال ہے جس کا جواب تو حکومتیں بجٹ میں دیا کرتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح حکومت نے وعدہ بھی کیا تھا لیکن حکومت کے وزیر خزانہ نے نیلا سوٹ پہن کر قوم کو اپنا بڑا ہوا پیٹ دکھایا اور بتایا کہ اس پیٹ کو کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کم آمدن والوں پر مزید ٹیکس، سیلز ٹیکس، سپر ٹیکس، پٹرولیم لیوی، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور جہاں جہاں ممکن ہو وہاں ٹیکس کے اوپر نیا ٹیکس یعنی ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے، ٹیکسوں سے حکومت تو مالا مال نہ ہوگی، عام آدمی مزید کنگال ہوگا۔ رٹیلر مافیا ایک مرتبہ پھر ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچ گیا۔ ایک اور وعدہ پورا ہوا۔

تبصرے بند ہیں.