موسمیاتی تبدیلی سے ماہی پرور پریشان

96

آلودگی میں اضافے کے ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی سے بھی آنے والے دور میں سیلابی صورت حال میں اضافے کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بارش بنیادی طور پر موسم گرما میں مون سون کے موسم میں ہوتی ہیں مگر موسمیاتی تبدیلی سے مستقبل میں پاکستان میں سیلاب کی شدت اور تعداد میں اضافے کا پیش خیمہ ہوگا جس کی وجہ پہاڑوں پر برف کے تیزی سے پگھلنے اور مون سون کی تبدیلی ہے۔ آبی وسائل سے تعلق رکھنے والے اور براہ راست متاثر ہونے والا ایک اہم سیکٹر ماہی پروری بھی ہے۔ پچھلے سال کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں جنوبی پنجاب کے مچھلی فارم سیلاب سے متاثر ہوئے جن کے اثرات آئندہ سال تک بھی معیشت پر نظر آئیں گے مگر سب سے زیادہ متاثر سوات میں ہونے والی فش فارمنگ ہے۔ 26 اگست 2022 کو آنے والا سیلاب 237 پرائیویٹ ٹراؤٹ فش فارم اور 2 گورنمنٹ ہیچریوں کو بہا کر لے گیا۔ یہ نقصان نہ صرف بلین روپے کی املاک کا ہے بلکہ 15 ہزار میٹرک ٹن ٹراؤٹ جسکی مالیت ملین روپے میں ہے اس میں بہہ گئی اور سیکڑوں افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔

اگر تالاب ایسے ایریا میں تعمیر کئے گئے تھے جہاں اردگرد کا پانی بہہ کر تالاب میں داخل ہوسکتا ہے تو اس سے اردگرد موجود کیمیکل، پیسٹی سائیڈ یا دوسرے آلودہ مادے بھی اس پانی میں شامل ہو کر تالاب میں موجود مچھلیوں کی اموات کا سبب بن سکتے ہیں۔ تالاب کی سائیڈ دیواروں کو بارش کے پانی کے بہاؤ سے بچانے کے لیے اسکی دیوار کے ساتھ اور اوپر گھاس اگانے سے بھی بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ پانی کی پی ایچ کم ہو جاتی ہے جس سے پانی کی تیزابیت بڑھ سکتی ہے، اسطرح بہت زیادہ بارش تیزی سے پانی کی تیزابیت یا اساسیت میں تبدیلی پیدا کرتی ہے جس سے نہ صرف مچھلی کی بڑھوتری متاثر ہوتی ہے بلکہ اچانک موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے تالاب کے پانی کی مسلسل ائیریشن ضروری ہے اسکے علاوہ اس پانی کو نکال کر دوسرا پانی ڈالا جا سکتا ہے اور تالاب کے پانی سے فصلیں جیسا کہ چاول کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ مسلسل بارش کے دنوں میں سورج کا نہ نکلنا بھی ہے ایسی صورت حال میں مچھلی کو خوراک دینا بند کر دینا فائدہ مند ہوگا اور سورج کے نکلنے پر دوبارہ خوراک کی فراہمی شروع کی جا سکتی ہے۔

الجی کی بہت زیادہ تعداد بھی تالاب میں مسائل پیدا کر سکتی ہے اور غیر مناسب یا زیادہ مقدار کا اندازہ پانی کے رنگ سے با خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ گہرا سبز پانی کا رنگ اس پانی میں تیرتی ہوئی الجی کی ایک بڑی تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے حالات میں مچھلی کو خوراک ڈالنا اور کھادوں کا استعمال بند کر دینا ضروری ہے۔ برسات کے موسم میں کسان اگر دیکھیں کہ مچھلی بار بار پانی کے اوپر ہوا سے آکسیجن لینے کی کوشش کر رہی ہے تو فوری طور پر ائیریٹر کا استعمال شروع کرنا بہت ضروری ہے۔ مچھلیوں کی تعداد کو تالاب سے کم کر دیا جائے تو بھی کسی حد تک آکسیجن کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ مچھلی اور دوسرے آبی جاندار اس دنیا میں موجود تمام خوراک کے مقابلے میں سب سے ذیادہ صحت بخش غذا ہے۔ اسمیں بہت سے اہم غذائی اجزا جیسا کہ پروٹین، وٹامن ڈی اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم اور دماغ کے لیے بہت مفید ہیں۔ اکثر لوگوں میں مختلف غذائی اجزا کی کمی ہوتی ہے جیسا کہ آئیوڈین اور وٹامن وغیرہ تو مچھلی سے وہ لوگ یہ غذائی اجزا حاصل کرنے کے علاوہ دوسرے اہم اور اچھی کوالٹی کے پروٹین، صحت کے لیے مفید چکنائی، پانی میں حل ہونے والے وٹامن، چکنائی میں جذب ہوسکنے والے وٹامن اور دوسرے معدنیات (نیوٹریئنٹ) حاصل کر سکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور اسکے نتیجے میں بے قاعدہ بارشیں ملکی آبی وسائل اور پیداوار میں خلل پیدا کرتے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تبدیل ہوتی ہوئی آب و ہوا اور مو سمیاتی تبدیلی کو سمجھا جائے اور ان تبدیلیوں کی پیش گوہی کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید طرز پر ماڈل تیار کئے جائیں جو ملکی ماہی پروری کی پیداوار کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ تالاب کے بہتر انتظامات اور منظم دیکھ بھال کے لیے درست خوراک کا استعمال نہایت ضروری ہے جو مچھلی کی صحت مند نشونما کو یقینی بنانے کے علاوہ تالاب کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔

تبصرے بند ہیں.