بغاوت کا مقدمہ، تاحیات نااہلی، 85 کروڑ فیس

106

ہٹ دھرمی، انا، مقبولیت کا زعم، خان ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں، چومکھی لڑائی فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گئی، پیغام دے دیا گیا جنگ ہے تو جنگ ہی سہی مقابلہ ہو گا۔ کوئی فریق ہار ماننے کو تیار نہیں، سہولت کاری جاری۔ ”ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق“ خان کو دیکھتے ہی باچھیں کھل گئیں۔ گڈ ٹو سی یو کہنے کو جی چاہا، دستور تو تھا موقع نہیں تھا۔ حال ہی میں میدان میں کودنے والا فریق صرف گفتار کا غازی، کردار ناپید، بیانات پر گزارا ”نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں“ غیر فعالیت اور سست روی کے سبب قانون سازی کا عمل بھی معطل، اجلاسوں میں صرف ہنگامہ آرائی، وفاقی بجٹ کی تیاریاں، بجٹ منظوری کے بعد صورتحال واضح ہو گی۔ اس سے پی ٹی آئی اور سہولت کاروں کو موقع مل گیا۔ خان اوپر تلے دو تین مقدمات میں بری، نیب ترامیم اور مخصوص نشستوں کے خلاف دائر اپیلوں میں پوری عدلیہ کو مصروف کر دیا گیا۔ جون ان ہی مقدمات میں گزر جائے گا۔ جولائی میں تعطیلات، بعد میں صرف تین ماہ اور پھر ریٹائرمنٹ بزعم خود خطرہ ٹل جائے گا۔ آنے والا دور کیسا ہو گا، آنے والے دور میں دیکھا جائے گا، خان کو باہر نکالنے کی لمبی پلاننگ اس دوران جولائی میں عوام کو باہر نکالنے کی تیاریاں، پنجاب کی قیادت نے عوام کو سڑکوں پر لانے سے معذرت کر لی۔ ”گرمی بہت ہے ہم سے تو لایا نہ جائے گا“ محض بہانہ آٹھ کالیں بیکار گئیں۔ ملک کے محافظوں کے خلاف گھناؤنی سازش ناکام بنانے والے بظاہر خاموش، حکومت اپنی میعاد سے خوفزدہ پارلیمنٹ محدود لمبی پلاننگ پر عمل ہو رہا ہے۔ بہت سے گنڈاسہ بردار جلتی پر تیل چھڑ رہے ہیں۔ سابق صدر عارف علوی اچانک میدان میں کودے لیکن ناکامی کا اعتراف کر کے پیچھے ہٹ گئے۔ شرمندہ نہیں ہوئے۔ خطرناک صورتحال، فیصلہ قریب، اشارے ملنا شروع ہو گئے۔ انتشار کی بنیادی وجہ ڈیجیٹل دہشتگردی، روک تھام کے لیے فائر وال نصب کر دی گئی۔ عدم استحکام کا ذمہ دار ”ہنسوں کا جوڑا“ انہیں تا حیات جیل میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ 15 سال 18 سال قید (بہت ہے کیا 9 سو سال زندہ رہیں گے) ملکی ترقی کے لیے سپیڈ بریکر ثابت ہوئے۔ انہوں نے ذاتی محرومی کو مقتدرہ کے خلاف جنگ میں تبدیل کر دیا۔ خواجہ آصف نے منہ بند رکھنے کو کہا۔ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے سیاستدانوں سے مذاکرات کا مشورہ دیا۔ جواب دیا فارم 47 والوں سے بات نہیں کروں گا۔ پہلے چور ڈاکو اب فارم 47 اسی چکر میں پارٹی ہاتھ سے نکل گئی۔ اسی دوران 1971ء کی جنگ سے متعلق ٹوئٹس ”غدار محب وطن کا ٹنٹنا لے بیٹھے“ ایف آئی اے کی ٹیم تفتیش کے لیے جیل پہنچ گئی۔ دو چار چکروں میں بیان لینے میں کامیاب اعتراف کر لیا کہ ٹوئٹس میری ہیں۔ بغاوت کا مقدمہ تیار، تگڑا مقدمہ تگڑے وکیل، حکومت نے پہلی بار مضبوطی سے دم پر پاؤں رکھا ہے۔ دو بل تیار کیے جا رہے ہیں۔ جن کا مقصد سوشل میڈیا کو لگام دینا اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہرزہ سرائی پر پارٹی کو کالعدم کرنا ہو گا۔ سوشل میڈیا پر فضول ٹوئٹس بند ہونے سے آکسیجن کی پائپ لائن کٹ جائے گی۔ ایک ثقہ راوی کے مطابق پارٹی پر پابندی نہ لگی تو بڑھکیں مارنے لیکن کچھ نہ کرنے والے علی امین گنڈا پور کو چیئرمین بنوا کر پارٹی ان کے سپرد کر دی جائے گی۔ وکلا کیا کریں گے؟ مقدمات کا لا متناہی سلسلہ جاری رہے گا۔ وہ پیروی کرتے رہیں گے۔ مبینہ طور پر اب تک 85 کروڑ بطور فیس وصول کر چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ 9 مئی کے یوم سیاہ کے بعد پروگرام تھا کہ مئی کے آخر یا جون کے شروع میں خان کو باہر نکالا جائے گا تاکہ وہ جولائی میں بجٹ کے ستائے ہوئے غریب عوام کو سڑکوں پر لا سکیں۔ ایک دو تین چار کتنی ضمانتیں ہو گئیں۔ خان باہر نہ آ سکے۔ مایوسی کے عالم میں ڈیتھ سیل اور قید تنہائی کا شور، سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے دوران پول کھل گیا۔ حکومت نے جیل کے ”فائیو سٹار ہوٹل“ اور دیگر مراعات کی تصاویر پبلک کر دیں۔ ”جھوٹی شکایتیں ہوئیں ایمان تو گیا“ کیا جھوٹ کی کوئی سزا ہے کم از کم صادق اور امین کا جزوی سرٹیفکیٹ ہی واپس لے لیا جائے۔ مگر کیا کیا جائے، سیاستدان نہیں عشاق سیاست کر رہے ہیں۔ دھڑلے سے جھوٹ بولا ڈالر ملتے ہیں۔ بریت مل جاتی ہے خان نے پیشی کے دوران 18 بار جھوٹ بولا۔ مورخ تو جھوٹا ہی لکھے گا۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ سینئر صحافی نصرت جاوید نے سائفر کیس پر کئی سوالات اٹھا دیے۔ کہا کیا سائفر لہرانا جرم نہیں تھا؟ کاپی گم ہو گئی تاہم پورا متن انٹر سیپٹ ویب سائٹ میں چھپ گیا۔ کاپی کس نے دی کسی نے پوچھا؟ پتا نہیں خان پاکستان پر حملہ آور لیکن کینسر کا علاج پیناڈول سے کرنے کی کوشش، سرجری کی ضرورت ہے۔ ایک مشکل درپیش اداروں میں یوتھیے بھرے ہیں۔ تطہیر ضروری لیکن وقت درکار، حالات اچھے نہیں ہیں، ایک طرف خان کی ٹوئٹس دوسری طرف علی امین گنڈا پور اور مراد سعید کی بڑھکیں اور دھمکیاں، عوام کمر کس لیں صفیں درست کر لیں۔ ان کے ساتھ آواز ملانے والی بھارتی لابی بھی متحرک ہو گئی۔ ایک میڈیا پرسن نے بھارتی تھنک ٹینک کے حوالے سے ہرزہ سرائی کی کہ (خاکم بدہن) پاکستان 2030ء میں ٹوٹ جائے گا۔ خان اور پارٹی کے دیگر لیڈر ٹکڑوں کی بات کر چکے۔ سیانے کہتے ہیں کہ حکومت کوئی بڑا دھماکہ کرنے والی ہے کیا کرے گی؟ محض نشستیں چھن جانے کے بعد دو تہائی اکثریت نہیں رہی۔ بل کیسے منظور ہوں گے بجٹ منظوری میں پریشانی ہو گی۔ با خبر ذرائع کے مطابق دو اہم شخصیات نے گزشتہ دنوں جاتی امراء میں میاں نواز شریف سے طویل ملاقات کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی شریک تھیں۔ نواز شریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے سرگرم نظر آتے ہیں۔ اہم شخصیات نے ان سے پارلیمنٹ کے ذریعے آگ بجھانے میں کردار ادا کرنے کو کہا۔ میاں صاحب نے حامی بھر لی، ادھر شہر اقتدار میں مارگلہ روڈ پر بھی راتیں جاگ رہی ہیں۔ رات کے آغاز سے طلوع آفتاب تک مشاورت کی خبریں ہیں۔ اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں بجا طور پر اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ موجود بحران کی تمام تر ذمہ داری خان اور پی ٹی آئی کے دیگر لیڈروں پر عائد ہوتی ہے جو بضد ہیں کہ مذاکرات صرف اور صرف سید بادشاہ سے ہوں گے۔ جبکہ سید بادشاہ کا موقف ہے کہ خان ضد چھوڑ کر سیاستدانوں سے بات کریں اور کسی فارمولے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ تبدیلیاں متوقع ایمرجنسی پلان کے نفاذ کی خبریں لیکن اپنے خان صاحب مستقبل قریب میں باہر نہیں آئیں گے۔ ”ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں“۔

تبصرے بند ہیں.