قارئین! ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں کسی ”بے ضرر“ سرکاری محکمے کا گریڈ سترہ یا اٹھارہ کا ایک شادی شدہ سرکاری ملازم جس کی تنخواہ میں پچھلے چند برسوں میں حکومت کی طرف سے ”ترسا ترسا“ کے اونٹ کے منہ میں زیرے برابر اضافہ ہوا ہو جبکہ اس دوران اُس کے بچے دو سے چار اور خرچے چار سے آٹھ ہو گئے ہوں۔ اس مسکین کے لیے بڑی عید جیسا تہوار کس قدر پریشان کُن ہو سکتا ہے اسے تین چار بچوں والا گریڈ سترہ اٹھارہ یا اس سے کم کا کوئی ایسا سرکاری ملازم ہی سمجھ سکتا ہے جس کی آمدن کا کوئی دوسرا معقول اور محفوظ ذریعہ نہ ہو۔ وہ قلیل تنخواہ جس میں مہینہ دن گن گن کے بمشکل گزرتا ہو اس میں کسی مسکین کو اپنے تین چار بچوں کو عید کی شاپنگ کرانا پڑ جائے تو اسے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ایک انار سو بیمار بیچاری ایک تنخواہ اور ایک سو ایک خرچے، مکان کا کرایہ، بچوں کی سکول فیس، بجلی، پانی، سوئی گیس اور دودھ والے کے بِل، مہینے کا راشن اور اس کے علاوہ روزہ مرہ کے چھوٹے موٹے بیشمار خرچے ہیں جنہیں پورا کرتے کرتے ایک سفید پوش سرکاری ملازم بیچارہ خود خرچ ہو جاتا ہے لیکن یہ خرچے پورے نہیں ہوتے۔ ان حالات میں آپ خود سوچیں ایک کم تنخواہ والا ایماندار سرکاری ملازم قربانی کا جانور خریدنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے جبکہ قربانی کے جانوروں کا کوئی ایسا لنڈا بازار بھی نہ ہو جہاں سے سیکنڈ ہینڈ جانور نسبتاً سستے داموں ملتے ہوں۔ ایسے میں کبھی کبھار دل میں یہ بونگا سا خیال آتا ہے کہ کاش ہم کم آمدن والوں کے لیے حکومت ہر سال عید کے موقع پر کوئی ایسا لنڈا بازار لگائے جہاں لنڈا بازار ہی کی طرح سیکنڈ ہینڈ جانوروں کے بڑے بڑے ریوڑ ہوں جس میں سے لوگ چھانٹی کر کے سستے داموں اپنی اپنی پسند کا جانور خرید سکیں۔ اس طرح ایک مقدس مذہبی فریضے کی ادائیگی اور معاشرے میں اُن کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہنے کے ساتھ اُنہیں کچھ دنوں کے لیے جی بھر کے کھانے کو گوشت بھی مل سکے۔ بڑی عید میں صرف چھ دن رہ گئے ہیں جن لوگوں نے اس برس عید پر قربانی کا ارادہ کیا ہے اُن میں سے کئی ایک نے اب تک قربانی کے جانور خرید لیے ہونگے اور بہت سے لوگ ابھی تک منڈی میں گاہکوں کا زور کم ہونے کا انتظار کر رہے ہونگے تا کہ وہ اپنے بجٹ کے مطابق مناسب قیمت میں کوئی ”آنڈا پِیس“ جانور خرید سکیں۔ میرے ایک جاننے والے پچھلے دس پندرہ دنوں سے جیب میں پیسے ڈال کر قربانی کا جانور خریدنے کے لیے وقفے وقفے سے شہر کی چھوٹی بڑی سب بکر منڈیوں کے اتنے چکر لگا چکے ہیں کہ اب تک انہیں ان منڈیوں کے سب جانور، بیوپاری اور وہ سب جانوروں اور بیوپاریوں کو ”منہ زبانی“ یاد ہو چکے ہیں۔ بیوپاریوں کے برعکس جانوروں کے چہروں پر تو انہیں دور سے ہی اپنی طرف آتے دیکھ کر اطمینان کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ پچھلے سات آٹھ دن سے ان کی لگاتار منڈی میں آمد و رفت اور جانوروں کی قیمت پر بیوپاریوں سے ہونے والی بحث و تکرار کے بعد انہیں پورا یقین ہو گیا ہے ان سے کسی جانور کی جان کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اب کسی روز اگر وہ منڈی کا پھیرا نہ لگائیں تو یہ جانور ان کو اچھا خاصا ”مِس“ کرتے ہیں۔ منڈی کے پھیرے لگانے سے پہلے وہ اور اُن کے بچے قربانی کا جانور خریدنے کے حوالے سے بڑے پُرجوش تھے۔ اس نیک مقصد کے لیے انہوں خاص طور پر پورا سال تھوڑی تھوڑی بچت کر کے اپنی تئیں پچیس ہزار روپے کی ایک خطیر رقم جمع کی تھی جس کے عوض اب تک انہیں قربانی کا کوئی جانور تو کیا ملتا اُلٹا بیوپاری انہیں جگتیں لگاتے ہیں۔ جس پر وہ بیوپاریوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے خلاف بھی غصے سے بھرے بیٹھے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے ”آجکل منڈی میں جانوروں کی قیمت کو آگ لگی ہوئی ہے کمزور سے کمزور جانور بھی اتنا مہنگا ہے کہ اس کی قیمت سُن کر بندے کو اپنی کم وقتی کا احساس ہونے لگتا ہے“۔ انہوں نے کہا ”کہنے کی حد تک تو ہم انسان ہیں مگر زندگی جانوروں سے بھی بدتر گزار رہے ہیں اس سے تو کہیں بہتر تھا ہم جانور ہوتے سارا سال نہ سہی کم از کم بڑی عید پر تو اپنا بھاؤ بڑھ جاتا“۔ میں نے بڑے ادب سے عرض کیا ”حضور چار دن کی ٹہل سیوا کے بعد پھر چُھری بھی تو آپ ہی کے گلے پر پھرنی تھی“۔ بولے ”چلیں اسی بہانے چار دن تو ہماری قیمت بڑھ جاتی، چھری کا کیا ہے وہ تو ہر روز ہی ہمارے گلے پر چلتی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے قربانی دیتے آ رہے ہیں کبھی وطن اور سماج کے نام پر کبھی رشتوں کے نام پر“۔ یہ کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جنہیں ضبط کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ”ہم نے تو جیسے تیسے اپنی ناآسودہ خواہشات کے ساتھ یہاں تک زندگی بسر کر لی ہے مگر مجھ سے اپنے بچوں کی محرومی نہیں دیکھی جاتی۔ جب گلی محلے کے بچے اپنے اپنے جانوروں کو سجا سنوار کے گلی میں گھماتے ہیں، عید پر نئے کپڑے پہن کر خوشی سے چمکتے دمکتے چہروں کے ساتھ کھیلتے کودتے ہیں تو میرے بچوں کے دل پر احساسِ محرومی کی جو چھریاں چلتی ہیں وہ میرا کلیجہ چیر دیتی ہیں“ میں نے دلاسہ دینے کے انداز میں عرض کی ”میرے محترم یہ سب میرے رب کی تقسیم ہے اس فانی دنیا میں ہمارا عارضی قیام ہے لہٰذا ہمیں اپنی محرومیوں پر کُڑنے کی کے بجائے انہیں رب کی رضا سمجھ کر صبر شکر سے کام لینا چاہیے“۔ جس پر انہوں نے اپنے مزاج کے خلاف ایک دم طیش میں آ کر کہا ”میں اس ظلم، زیادتی اور ناانصافی کو ہرگز رب کی تقسیم نہیں مانتا، میرا رب سب سے بہتر انصاف کرنے والا ہے اس کے ہاں سبھی انسان برابر ہیں وہ بھلا کیوں اپنے بندوں کے درمیان تفریق پیدا کرے گا۔ یہ تو غاصبوں کا ایک مخصوص ٹولہ ہے جو اپنی طاقت، اختیار اور چالاکی کے بل بوتے پر وسائل پر قابض ہو کر ہمارے جیسے بھولے بھالے اور کمزور لوگوں کا نسل در نسل استحصال کر رہا ہے۔ مگر اپنے حقوق کے حوالے سے اب عام لوگوں میں جس رفتار سے شعور بڑھ رہا ہے ان شاء اللہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب غاصبوں کا یہ ٹولہ اپنے تمام ظلم، زیادتی اور ناانصافیوں کے ساتھ ہم مظلوموں کے سامنے جواب دہ ہو گا۔ اگرچہ ابھی ان کے دلوں میں کسی قسم کا ڈر اور خوف نہیں ہے مگر انہیں اس روز سے ضرور ڈرنا چاہیے اس روز اُن کایومِ حساب اور ہماری حقیقی عید ہوگی“۔
تبصرے بند ہیں.