مودی کا ایجنڈااور زمینی حقائق

85

 

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں الیکشن بھی ہوگئے اورنتائج بھی آگئے۔آج نریندر مودی تیسری بار ہندوستان کے ”پردھا ن منتری“ بن رہے ہیں۔ الیکشن کے نتائج نریندرمودی اور حکمران جماعت بی جے پی کے لیے نہ صرف مایوس کن بلکہ پریشان کن بھی ہیں۔ جس رفتار سے مودی حکومت سفر کررہی تھی اس لحاظ سے تمام تجزیہ کاریہ سمجھ رہے تھے کہ مودی اس بار ریکارڈ چار سو نشستیں جیت جائیں گے اور یہی ”چار سوپار“ کا نعرہ بی جے پی لگارہی تھی لیکن چار سو کیا پارکرنا تھا مودی کی اپنی جماعت سادہ اکثریت تک حاصل کرنے میں ناکام رہی۔جب سب ہی تجزیے یہ بتارہے تھے کہ بی جے پی کے لیے دوتہائی اکثریت حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا ایسے میں یہ نتائج مودی کی شکست کے مترادف ہیں۔ہم پاکستانیوں اور ہندوستان کے مسلمانوں ہی نہیں بلکہ تمام اقلیتوں، یہاں تک ہندو”دلتوں“کے لیے بھی اطمینان کی وجہ ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ وہ کیوں نہیں ہوسکا جو مودی چاہتے تھے؟
نریندر مودی کیا چاہتے تھے یہ ایک پیچیدہ سوال ہے لیکن ہم اگر ان کے دس سالہ دور اقتدار،ان کی پالیسیوں اور کاموں کا تجزیہ کریں تو ہمیں سمجھ آسکتی ہے کہ مودی کیوں ناکام رہے۔ وہ ہندوستان کے وزیراعظم تو بن گئے ہیں اور ریکارڈ تیسری بار بن رہے ہیں لیکن الیکشن میں ان کی نشستیں کم ہوئی ہیں۔ان کی اپنی پارٹی اکیلی ہندوستان کی حکمران بہرحال نہیں ہے۔ہندوستان میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 272نشستیں درکار ہوتی ہیں لیکن بی جی پی صرف240نشستیں ہی جیت پائی ہے۔اس الیکشن میں مودی کی بی جے پی واحد ایسی پارٹی ہے جس کی نشستیں کم ہوئی ہیں باقی تمام جماعتوں کی نشستیں بڑھی ہیں۔ گزشتہ اسمبلی سے مودی کی پارٹی کی 63نشستیں کم ہوئی ہیں۔مودی کی حکومت دوبڑے اتحادیوں کے سہارے بنی ہے۔ان میں بہار کے نتیش کمار کی پارٹی کی 12اور آندھراپردیش کے چندرا نائیڈو کی 16نشستیں ہیں۔یہ دونوں ہی ہندوستان کے سینئر سیاستدان ہیں۔ ایک بہار کے وزیراعلیٰ ہیں جنہوں نے وہاں لالو پرساد کا راج ختم کیا اور نائیڈو آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ ہیں۔ان کی سیاست کانگریس کے ساتھ شروع ہوئی لیکن اب ان کی اپنی پارٹی ہے۔ان دونوں کی حکومت میں موجودگی مودی کے لیے کسی درد سر سے کم نہیں ہوگی۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا بنیادی ایجنڈا ہندوستان کو ایک سیکولر ریاست سے ہندوریاست میں تبدیل کرنا تھا۔وہ اپنے دس سال میں مسلسل اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھے ہیں۔انہوں نے ہندوستان میں ”ہندوازم خطرے میں“ کاپرچار کیا۔ اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم کیا وہ الگ داستان ضرور ہے لیکن ہے اسی ایجنڈے کا حصہ۔اب ہمیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست بنی رہے یا اس کو تبدیل کرکے اس کو ایک مذہبی ریاست بنادیاجائے لیکن شاید اس ایجنڈے سے خود ہندوستان کو فرق پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نریندرمودی کو اس بار وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی اس کو توقع تھی۔ بھارتی آئین میں تبدیلی کا ایجنڈامودی کی شکست کی وجہ بن گیا۔
ہندوستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہندستان ایک بہت بڑا ملک ہے۔اس ملک میں ہر ریاست ایک الگ ملک کی طرح چلتی ہے۔ہر ریاست کی زبان الگ ہے یہاں تک کہ مذہب بھی الگ ہے۔ہندوستان میں مذہبی سیاست کرنا آسان اور کامیابی کا ذریعہ ضرور ہے لیکن ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پالیسی ساز وں کو اس کا ادراک ہے اور بہت گہراادراک ہے کہ ہندوستان کی بقا صرف اور صرف ایک سیکولر ریاست رہنے میں ہی ہے۔مودی کی سب سے بڑی مقبولیت ہندوؤں کی ایلیٹ کلاس میں ہے۔بڑے تاجروں میں ہے اور بڑے صنعتکاروں میں ہے۔ہندومعاشرے نے مودی کی پورے ملک کو ایک ہندوریاست میں کنورٹ کرنے کی سوچ کو قبول نہیں کیا۔کیونکہ اگر ہم وہاں بسنے والے مسلمانوں اوردوسری اقلیتوں کو نکال بھی دیں پھر بھی وہاں ہندووں میں جو ذات پات کا نظام ہے اس میں نچلی ذات کے جو ہندوہیں ان کی اکثریت بھی کافی ہے اور ان کا تعلق پسے ہوئے طبقے سے ہے۔وہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی بھی طرح یہ ملک مکمل طورپر اپر کاسٹ کے ہاتھ میں چلاجائے۔
دوسری وجہ مسلمانوں کے ساتھ بی جے پی کاذلت آمیز سلوک ہے۔اس کام کے لیے مودی نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کوٹاسک دے رکھاتھا۔اتر پردیش ایسی ریاست ہے جو نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی ریاست ہے۔مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی بھی اسی ریاست میں ہے۔ تقسیم کے بعد سے مسلمان اترپردیش کی سیاست میں کافی متحرک رہے ہیں۔اترپردیش میں بی جے پی سے پہلے اکلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی اقتدارمیں تھی۔سماج وادی ہو یا مایا وتی کی بھوجن سماج پارٹی دونوں میں ہی مسلمانوں کو نمایاں مقام رہا لیکن مودی کے آنے کے بعد اترپردیش میں بھی تبدیلی آگئی۔اس ریاست میں یوگی ادتیاناتھ نے گزشتہ آٹھ سالوں میں مسلمان رہنماؤں کو چن چن کر سیاست سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے بھی ختم کرنے کا ایجنڈا نافذ کیے رکھا۔چوک چوراہوں کے نام جو مغل بادشاہوں کے نام پرتھے سب مٹاکر ہندوؤں کے نام پر کردیے اور بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیر بھی مکمل کی۔ان اقدامات کے بعد مودی کو یقین تھا کہ اس کوکامیابی ملے گی لیکن وہ اترپردیش سے بری طرح ہارگئے اور اکلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی نشستوں کے اعتبار سے ہندوستان کی تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھرآئی۔اس ایک ریاست نے مودی کے ایجنڈے کو خاک میں ملادیا۔
ہندوستان کے الیکشن میں کچھ نتائج ایسے بھی آئے ہیں جو ہم یہاں پاکستان میں شاید تصور نہیں کرسکتے۔ایسے نتیجے بھی آئے یہاں ریاست کی حکومتوں کو شکست ہوئی۔ جیسا کہ دلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے لیکن وہاں کی سات کی سات نشستیں بی جے پی جیت گئی،کیجریوال ہارگئے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے لیکن وہاں کانگریس جیت گئی۔اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن وہاں سماج وادی پارٹی جیت گئی۔مہاراشڑا میں کانگریس اپوزیشن میں ہے لیکن وہاں سب سے زیادہ نشستیں کانگریس کے حصے میں آگئیں۔یہ ٹرینڈ ہندوستان میں الیکشن کی شفافیت اورالیکشن کمیشن کی مضبوطی کو ظاہر کرتے ہیں۔اس چیز کی پاکستان کوابھی تک تلاش ہے۔جب تک پاکستان کی یہ تلاش ختم نہیں ہوتی ہم اپنی جمہوریت کے خود دشمن رہیں گے۔ہر الیکشن سے پہلے الیکشن روکنے کے لیے سارا زور۔الیکشن کے دوران دھاندلی پر سار ازور اور الیکشن کے بعد نتائج قبول نہ کرنے پر سارا زور۔یہی زوراگر سب مل کر الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے اس پر اعتماد کرنے پر لگائیں تو نتائج بہتر نکل سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.