باغیانہ سوچ اور فطرت، ٹرمپ، عمران اور مودی

89

باپ رے باپ، یہ زمانے کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ حالات کدھر کو جا رہے ہیں۔ دنیا گرگٹ کی طرح رنگ کے رنگ بدلتی جا رہی ہے۔ سانس سے زیادہ تیزی کے رحجان میں میرا حق دو، جاری و ساری ہے۔جس طرح پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس کے اثرات اب سیاسی اور معاشرتی ماحول میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ بہت سے ممالک میں الزامات کی سیاست کوئی نئی بات نہیں۔ یورپی یا ایشیائی ایوان بالا اور ایوان زریں ہو وہاں مار کٹائی، ہاتھا پائیاں، گالیاں، بدتمیزیاں ایک روایت بن چکی ہیں۔ اگر ہم اپنے خطے کی بات کریں تو ایشیائی ممالک یورپی ممالک سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ خاص کر پاکستانی سیاست کے کلچر میں کچھ زیادہ ہی لڑائی جھگڑے، الزامات، ذاتی الزامات، ایک دوسرے کو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں سرعام نہ صرف تذلیل، نہ صرف گھٹیا زبان کا استعمال نہ صرف عورتوں کے بارے الزامات، مخالفین پر حملے۔ اب تو روایات کا حصہ بنتے جا رہے ہیں بلکہ ہم سب سے دو نہیں کئی ہاتھ آگے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارت کے انتخابات کے جب اولین نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ مودی سرکار کو چار سو کے قریب سیٹیں ملی ہیں اور مودی کے ایگزٹ پول نے بہت بڑا فراڈ کرتے ہوئے اپوزیشن کو نکرے لگانے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ بھارت میں بھی ان انتخابات کے موقع پر وہی قصے اور الزامات دہرائے گئے جو پاکستان میں فارم 45 اور فارم 47 کے ساتھ انتخابی کھیل کھیلا گیا۔ بھارت میں تو ایگزٹ پول نے تو مودی کو مکمل فتح دلوا دی جب وہاں کی اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا نے شور مچایا تو پتہ چلا کہ مودی کی مقبولیت میں کمی اور کانگریس نے طویل عرصہ کے بعد پھر بھارتی سیاست میں جگہ بنا لی۔ یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہوئی کہ جس طرح حالیہ انتخابات میں کہا گیا کہ کراچی کی 18نشستوں پر انتخابات ہوئے اور رزلٹ میں تین سیٹیں اضافی شو کر دی گئیں اسی طرح بھارتی عوام پارٹی کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ راجستھان میں کل 25سیٹیں تھیں جبکہ وہاں مودی سرکار کو 33 سیٹیں دی گئیں۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ ہمیں بیوروکریسی اور ریاستی اداروں نے ہروایا ورنہ ہم چار سو کے قریب سیٹیں لے جاتے۔

پاکستان اور پاکستانی تعلقات تو ایک پیج پر نہ آ سکے مگر ہم سیاست میں ضرور ایک پیج پر آ گئے ہیں جو حال پاکستان میں حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کے ساتھ ہوا ویسا ہی ماحول آج پورے بھارت میں ہے۔ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ پر الزامات ہیں، الیکشن کمیشن پر الزامات ہیں، الیکشن کمیشن کے انتخابات اور الیکشن کروانے والوں پر الزامات۔ معاملات عدالتوں کی طرف حسب روایت چل پڑے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وہی جیت کے ہار تو کوئی ہار کو جیت میں بدلوانے کے لیے کوشاں ہیں۔ مرکزی اور صوبائی اسمبلی میں وہی مفادات اور نعرے بازیوں کے منظرنامے کچھ ایسا ہی بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر دیکھا جا رہا ہے۔ مودی حکومت بناتا ہے نہیں بناتا کون جوڑ توڑ میں کامیاب ہوتا ہے یہ ہمارا ایشو نہیں ہے۔ ہمارا ایشو تو یہ ہے کہ پاکستان اور بھارتی سیاست الزامات کے معاملے میں کم از کم ایک نظر آ رہے ہیں۔

ایک اور بڑی بات آج امریکہ، پاکستان اور بھارت کی تین اہم شخصیات یعنی ٹرمپ، عمران اور مودی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ تینوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ خاص کر سابق امریکی صدر ٹرمپ، ان کی دماغی پوزیشن جارحانہ انداز سیاست، جارحانہ رویہ، سیاست سے عدالت تک ہوں مقدمات کی بھرمار، عدالتوں کی طرف سے دونوں کو سزائیں ملنا، دونوں کی شخصیات دونوں کے نظریات دونوں کے بیانات دونوں کی ضدیں، دونوں کا کسی کو نہ ماننا، دونوں کا خواتین کے بارے میں عدالتوں میں سامنا یعنی دونوں نے گو ایک ماں سے جنم نہیں لیا مگر نظریات بہت ملتے جلتے ہیں۔ دھمکیاں دینا اور میں یہ کردوں گا وہ کر دوں گا والی دھمکیاں دونوں ممالک کی بڑی شخصیات کے بارے میں دونوں ممالک کے عوام اور میڈیا میں ان کو سب سے زیادہ کوریج مل رہی ہے۔ عمران اور ٹرمپ اور مودی جہاں حکومت میں آئے اور رہنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں اور تینوں لیڈران اپنی اپنی حکومتوں اور اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لئے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ اور عمران عدالتوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں اور مودی اب عوام اور اپنی اپوزیشن کے شکنجے میں آ چکے ہیں۔

 

یہ ریاستی جبر کیا ہوتا ہے کیوں یہ انتخابات کے موقع پر ریاستی مداخلت حکومتی مشینری اور مداخلت کے الزامات لگتے ہیں اور پر یہ الزامات صرف پاک بھارت سیاست تک ہی کیوں ہیں دوسرے ممالک سے کبھی ایسی آوازیں سننے کو نہیں ملتی ہیں۔ پوری دنیا میں انتخابی عمل ایک بڑے پراسیس سے گزرتے ہیں۔ بعض ممالک میں تو ہم یہ بات کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی باتیں سنائی دیتی ہیں مگر شومئی بدقسمتی کہ اب یہ روایات امریکی انتخابات کی طرف چل پڑی ہیں۔ بڑے عرصہ کے بعد امریکہ سے ہی یہی باتیں سننے کو مل رہی ہیں وہاں بھی دھاندلی کے الزامات اور دوبارہ گنتی کے معاملات سر اٹھا رہے ہیں۔ ایک عجیب سی نفرت کی سیاست نے جنم لے لیا ہے۔ ایک دوسرے کی کردارکشی کرنا اب تو فیشن بن چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئیں مردا۔ یہاں بھی کچھ بات ایسے ہی ہے۔ ہم نے جب سے قلم سنبھالا اور جب سے صحافت شروع کی ہے کبھی اہل بھارت کو کسی ایک معاملے کسی ایک رائے کبھی ایک ہوتے (سوائے حکومت معاملات کے) نہیں دیکھا۔ ان کے سامنے مرغ سڑک پار کر جائے تو دوسرا سیاست دان یہ کہے گا کہ اس نے غلط سڑک پار کی ہے یہ تو اس کی فطرت ہے۔ دوسرا سیاست دان یہ کہے گا کہ مرغ سڑک کے اوپر سے گزرا یا سڑک مرغ کے اوپر سے گزری۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ایک دوسرے کو مانیں نہ مانیں کیا فرق پڑتا ہے اگر میں پاک بھارت سیاست دانوں کا ذکر کروں تو پھر یہ بات ماننا ہوگی کہ دونوں سیاست دانوں کی باتوں، ان کی گفتگو ان کے کردار ان کی روایات ان کے رویئے ایک ہی ملتے جلتے بیانات میں ذرا رتی بھر بھی فرق نہیں۔

آپ کو کبھی سوکن سے واسطہ پڑا ہے؟ کیا آپ نے کبھی سوکنوں کے درمیان ہونے والی اصل لڑائی دیکھی ہے اور جنہوں نے یہ لڑائی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے تو یقینا وہ لوگ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آج ہماری اسمبلیوں میں سوکن سوکن کی لڑائیوں کا سماں ہے۔ یہ سوکنوں کے انداز میں لڑتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، اس دوران یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان دونوں کا شوہر کون ہے؟ شاید پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں ابن انشاء نے یہی کہا تھا۔
ایران میں کون رہتا ہے ایرانی قوم
فرانس میں کون رہتا ہے فرانسیسی قوم
یہ کونسا ملک ہے؟ یہ پاکستان ہے
اس میں پاکستانی قوم رہتی ہے
اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی
اس میں سندھی قوم، اس میں
پنجاب قوم، اس میں یہ قوم اور
اس میں وہ قوم رہتی ہے

 

اور آخری بات…!
ٹرمپ، مودی اور عمران کی لیڈرشپ پر ایک گہری نظر ڈالیں تو تینوں میں ایک بات مشترک ہے۔ عمران اور ٹرمپ تو ذہنی طور پر ایک ہی وکٹ پر کھیل رہے ہیں جبکہ مودی مسلمان دشمنی میں ہر حد پار کرنے کو تیار رہتا ہے۔ باغیانہ سوچ، باغیانہ ذہن، باغیانہ فطرت… اور ان کی وجہ شہرت بھی ایسے کارنامے ہیں جن کا کسی اچھے لیڈر کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔

تبصرے بند ہیں.