چند دن پہلے میں ترکی کے دورے پر تھی۔ جب بھی ترکی جاتی ہوں وہاں کا نظام حکومت، انفراسٹرکچر ، عوامی سہولیات، لوگوں کا طر ز زندگی مجھے متاثر کرتا ہے۔ تاہم سب ذیاد ہ متاثر کن شے ترکوں کی اپنے ملک سے بے لوث محبت یعنی حب الوطنی ہے۔ اس تناظر میں جب اپنے ملک پر نگاہ ڈالتی ہوں تو وطن کی محبت کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ دلوں کا حال تو میرا رب ہی جانتا ہے، لیکن جس طرح کی سرگرمیاں اور سوچ کا برملا اظہار پاکستان میں ہوتا ہے، اس سے میرے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ترکی میں سیاسی تفریق موجود نہیں ہے۔ سیاسی تقسیم کی لکیریں وہاں بھی نہایت گہری ہیں۔سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لتے لیتی ہیں۔ باہمی اختلاف رائے اور کڑی تنقید بھی ہوتی ہے۔لیکن سیاسی رہنما اور عوام کبھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتے۔ سیاسی رہنما اپنے پیروکاروں کو ماردھاڑ کا درس نہیں دیتے۔ پبلک ٹرانسپورٹ جلانے، سرکاری املاک پر حملے کرنے، سول نافرمانی ، اور راستے روکنے کے لئے نہیں اکساتے۔ تاریخ میں کسی نے حد سے تجاوز کیا بھی تو ریاست نے اس فتنے کو سختی سے کچل ڈالا۔ جبکہ ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں کچھ لوگ سیاسی مخالفت میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ وہ اپنے قومی اداروں کو خلاف زہر اگلنے اور قومی اعزازات کا تمسخر اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔
میں ترکی میں تھی جب یوم تکبیر منانے اور اس دن سرکاری تعطیل کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جا رہا تھا۔ افسوس کہ کچھ معروف اور اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسا کرنے میں پیش پیش تھے۔ مثال کے طور پر کچھ کا مؤقف تھا کہ اتنے سال گزر گئے ہیں، اب نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کیوں ایٹمی دھماکوں کا ذکر کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ایٹمی دھماکوں کو بھلا کر آگے چلیں۔ جواباً کچھ ہم خیال لوگوں کاتبصرہ تھاکہ دراصل ان کے پاس کہنے کیلئے کوئی اور بات ہے ہی نہیں، اس لئے وہ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ میں ملک سے دور بیٹھی سوچتی رہی کہ کیا ایٹمی دھماکے اتنی عام سی شے تھے(اور ہیں) کہ انہیں فراموش کر دینا چاہیے؟ کیا یہ کوئی شرمناک عمل تھا، جس کا تذکرہ نواز شریف یا مسلم لیگ(ن) نہ کرئے؟ کیا ایٹمی قوت کا حامل ا سلامی دنیا کا پہلا ملک ہونے کا اعزاز رکھنا ، اتنی معمولی بات ہے کہ اس کا ذکر کرنے کی ممانعت ہونی چاہئے؟ ایک نہایت پڑھے لکھے کالم نگار نے لکھا کہ مسلم لیگ(ن) کی مثال ایسے ہے جیسے کھسروں کے گھر لڑکا پیدا ہو جائے، وہ اسے چوم چوم کے مار ڈالیں۔ ۔یقین کیجئے کہ یہ اور اس جیسے شرم ناک تبصرے پڑھ کر مجھے نہایت دکھ ہوا۔ مجھ جیسے تو اپنے ملک کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی پر فخر کرتے ہیں۔ میں پیپلز پارٹی کی ووٹر نہیں ہوں۔اس کے باوجود برسوں سے میرا معمول ہے جب بھی کسی دوسرے ملک جاوں، پاکستا ن میں یا پاکستا ن سے باہر ، کسی غیر ملکی سے ملوں، تو گھما پھرا کر اپنی گفتگو میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا تذکرہ لے آتی ہوں۔کیا اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونا ایسا معمولی واقعہ ہے جسے فراموش کر دیا جائے؟ یہ فخر اور اعزاز تو آج تک امریکہ جیسے ملک کو نصیب نہیں ہو سکا کہ کوئی خاتون سربراہ حکومت بنے۔ ہم کیوں نہ اس اعزاز پر فخر کریں۔ اس مرتبہ دورہ ترکی میں ، میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کیساتھ ساتھ مریم نواز شریف کا بھی ذکر کیا۔ میری بات پر ہال میں تالیاں گونج اٹھیں۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) ایٹمی دھماکوں کو ذکر نہ کریں۔ اس زمانے میں نواز شریف نے امریکی صدر بل کلنٹن کی اربوں ڈالر کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ امریکی دباو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسے کہتے ہیں absolutely not ۔ آج بھارت پاکستان کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کرتا تو یہ ان ایٹمی دھماکوں کا نتیجہ ہے۔ نواز شریف سے، ذولفقار علی بھٹو سے، ڈاکٹر عبد القدیر خان سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا۔ انداہ کیجئے کہ یہ باتیں وہ لوگ کر رہے تھے، جو آج تک 1992 کے ورلڈ کپ جیتنے کا تذکرہ یوں کرتے ہیں جیسے کسی نے
چاند فتح کر لیا ہو۔اگرچہ مجھے کرکٹ سے دو ٹکے کی دلچسپی نہیں ہے۔تاہم اس ورلڈ کپ کا تذکرہ آتا ہے تو ہم کرکٹ ٹیم کی کاکردگی کو سراہتے ہیں۔ اس جیت پر پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔عمران خان کو بھی کریڈٹ دیتے ہیں۔ کیا سیاسی پسند نا پسند اتنی اہم شے ہے کہ آپ اپنے قومی اعزازات کو اس طرح رسوا کرنے لگیں ۔ ان کاتمسخر اڑانے لگیں۔ ان پر فخر کرنے کے بجائے، نئی نسل کو درس دیں کہ یہ تو نہایت معمولی بات ہے۔ آپ ایٹم بم کی اہمیت کسی فلسطینی سے پوچھیں،جو آج اسرائیل کے مظالم سہہ رہا ہے۔ کیا ایسی باتیں کر نے کے بعد آپ خود کو محب وطن اور پاکستانی سمجھتے ہیں؟
ایک طرف کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ قومی اعزازات کو بھلا دیا جائے۔ دوسری طرف سیاسی مفاد (اور فساد) کی خاطر تاریخ کے سیاہ اوراق کی اپنے مطلب کی تشریح اور تشہیر چاہتے ہیں۔ آج کل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے آفیشل ایکس اکاونٹ سے ایک ویڈیو کلپ شیئر ہونے کا معاملہ زیر بحث ہے۔ اس میں موصوف نے خود کو مجیب الرحمن کی جگہ رکھا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو جنرل یحی ٰ خان بنا کر پیش کیا ہے۔ تنقید ہوئی تو بیشتر ترجمان لاعلمی کا اظہار کرنے لگے۔ جواز دیا کہ عمران خان تو جیل میں ہیں اور یہ اکاؤنٹ امریکہ سے ہنڈل ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کا ذاتی اکاؤنٹ اپنے ملک سے کیوں نہیں چل سکتا؟ اس لئے کہ آپ نے اپنے ملک اور اداروں کے خلاف ایسی ذہر آلود باتیں کہنا ہوتی ہیں، جو اس ملک میں رہ کر نہیں ہو سکتیں ۔مضحکہ خیز بات دیکھئے کہ وطن عزیز میں مارشل لاء کی بنیاد رکھنے والے جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب اس ضمن میں انقلابی تقریریں کررہے ہیں۔ بہرحال سینیٹر عرفان صدیقی صاحب بجا طور پر فرمایا ہے کہ حمود ارلرحمان کمیشن رپورٹ پڑھنے یا پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حرج اس نیت اور ذہنی فتور میں ہے جو آج 53 سال بعد یکایک جاگ اٹھا ہے۔ پی۔ٹی۔آئی چار سال حکمرا ن رہی۔ کیوں اس نے میڈیا پر اس رپورٹ کی تشہیر نہیں کی؟ صدیقی صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ تحریک انصاف اس رپورٹ کو خیبر پختونخواہ کے تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ بنا لے۔
ابھی تو 9 مئی کی یا د بھی تازہ ہے۔جس طرح قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔جلاو گھیراو ہوا۔ شہداء کی علامتوں کو پامال کیا گیا۔کاش ان واقعات کے ذمہ دارو ں کی بروقت گرفت کی جاتی۔بھلا یہ کیا طرز عمل ہے کہ ہمارے فوجی افسر ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوجاتے ہیں تو آپ اظہار مسرت کرتے ہیں۔ کبھی یہ تدبیر کرتے ہیں کہ آئی ۔ ایم۔ ایف پاکستان کی امداد نہ کرئے اور اسے دیوالیہ ہونے دے۔ کبھی آئی۔ ایم۔ ایف کے ہیڈ آفس کے باہر نعرے بازی کرتے ہیں۔ یہ سب حرکتیں برسوں سے ہو رہی ہیں۔ وہ وقت یا د کیجئے جب کشمیر میں برہان وانی کی شہادت ہوئی تھی۔ پاکستان میں اظہار یکجہتی کے لئے منعقدہ جوائنٹ سیشن سے ترک صدر رجب طیب اروگان نے خطاب کرنا تھا۔ اس سیشن کا آپ نے بائیکاٹ کیا۔ بھارتی اخبارات نے ہمارا خوب تمسخر اڑایا کہ پاکستانی قیادت کشمیر کے مسئلے پر یکسو نہیں ہے۔ 2014 میں آپ نے ڈی چاک پر ایسا تماشا لگا رکھا تھا کہ چینی صدر پاکستان کا دورہ ملتوی کر کے غالبا بھارت اور بنگلہ دیش سے اربوں ڈالر کے معاہدے کر آئے تھے۔ اس دور میں جب وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ میں بھارت کے خلاف احتجاجی تقریر کر رہے تھے۔ آپ اس عمارت کے باہر’’مودی کا یار‘‘ کے نعرے لگا کر بھارتی لابی کی خوشی کا سامان کر رہے تھے۔ وہ واقعہ بھی ہوا جب لندن میں یوم آزادی پر آپ کے کارکن پاکستان کے بجائے پارٹی کے پرچم اٹھا لائے اور ایسا فساد مچایا کہ پاکستان کی خوب جگ ہنسائی ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ حب الوطنی کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ کیا آپ کی سیاسی پسند کے آگے پاکستان کے عزت و وقار کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کاش ہمارے ہاں قانون کی ایسی عمل دار ی قائم ہو جائے کہ پاکستان کی جگ ہنسائی کا اہتمام کرنے والوں کی کڑی گرفت ہو سکے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.