افتخار محمد چوہدری پر 12 مئی کی ذمہ داری؟

122

پاکستان کی تاریخ میں بہت سے ایسے گورکھ  دھندے دفن ہیں جن کی لرزہ خیزی سے انسانیت اور جمہوریت ہاتھ جوڑ کر پناہ مانگتی ہے۔ انہی میں سے ایک پرویز مشرف کے عہد کا ایک دن یعنی 12مئی 2007ء کو کراچی میں ہونے والی خونی ہولی ہے جو اُن کے ہاتھوں کو ہمیشہ خون میں ڈبوئے رکھے گی۔ 17برس قبل بہت چھوٹے سے ذاتی مفاد کے لئے اس روز کراچی میں جو ہوا وہ دسمبر 1971ء کے مشرقی پاکستان کے ڈوبتے ڈھاکہ کی یاد دلا گیا جب مکتی باہنی اور بھارتی خفیہ ایجنٹوں نے ہر پاکستانی کا نشانہ لے کر ڈھاکہ کی سرسبز مٹی کو سرخ کردیا۔ وہاں کی پولیس اور سیکورٹی کے دوسرے ادارے موت بردار مکتی باہنیوں اور بھارتی ایجنٹوں کے سامنے ”دروَٹے“ خاموش رہے۔ وہاں کا ایئرپورٹ، ٹی وی سٹیشن، ریڈیو، عدلیہ کی عمارتیں، ریلوے سٹیشن، تعلیمی ادارے، بازار، سڑکیں، گلیاں اور محلے صرف دو قسم کے افراد میں تقسیم ہوچکے تھے۔ ایک قسم مرنے والوں کی تھی اور دوسری مارنے والوں کی تھی۔ دسمبر 1971ء کے بعد پاکستان کی مظلوم تاریخ نے ایسا منظر 17برس قبل ایک مرتبہ پھر 12مئی 2007ء کو کراچی میں دیکھا۔ اِس وقت ملک پر نہ تو یحییٰ خان کی حکومت تھی اور نہ ہی مکتی باہنی کا وجود تھا۔ البتہ حکومتی ڈھانچوں میں کچھ مماثلت ضرور تھی۔ یعنی جنرل یحییٰ کی جگہ جنرل پرویز مشرف کا راج تھا۔ دسمبر 1971ء میں مکتی باہنی نے یہ سب کچھ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لئے کیا جبکہ 12مئی 2007ء کو یہ سب کچھ جنرل پرویز مشرف کی طاقت ظاہر کرنے کے لئے کیا گیا۔ یہ بات درست ہے کہ طاقت کے پہاڑ کو ریت بنانے کے لئے قدرت عموماً چھوٹا سا ذریعہ ہی پیدا کرتی ہے۔ مثلاً ہاتھی کی موت کا باعث ایک چیونٹی بن سکتی ہے یا نمرود کی موت کے لئے ایک مچھر ہی کافی تھا یا ایوب خان کو معاہدہ تاشقند لے ڈوبا۔ بالکل ایسے ہی دیوہیکل غرور کے مالک جنرل پرویز مشرف کو ججوں کی برخواستگی ہڑپ کرگئی۔ ججوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد جنرل مشرف کو ایسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو انہیں کارگل کی واپسی کے فیصلے پر بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ اپنے اس فیصلے کے بعد وہ دربدر کی لعن طعن سے اتنے کمزور ہوتے گئے کہ انہیں اپنی جان بخشی کے لئے بینظیر بھٹو کے ساتھ باہمی مفاد کے لئے این آر او پر دستخط کرنا پڑے۔ ’’جج بحالی تحریک‘‘ کی قیادت معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کررہے تھے لیکن اس تحریک کی طاقت کی وجہ ان کی ذات سے زیادہ اس تحریک کی فلاسفی تھی۔ یعنی کہ کسی کو بھی عدلیہ پر قبضے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ افتخار محمد چوہدری نے اس تحریک کو اُس وقت اور بعد میں اپنی ذاتی شہرت کے لئے استعمال کیا جبکہ ’’جج بحالی تحریک‘‘ میں شامل افراد نے ملک میں صرف اور صرف قانون کی حکمرانی کے لئے قربانیاں دیں۔ اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں کوئی ایسی جماعت یا گروہ موجود نہیں تھا جو جنرل پرویز مشرف کے مخالفین کو طاقت کے ذریعے روکنے کا دعویٰ کرسکتا۔ البتہ کراچی میںیہ دعویٰ ممکن تھا۔ افتخار محمد چوہدری نے جب کراچی میں 12مئی کو سندھ بار کے اجلاس سے خطاب کرنے کا اعلان کیا تو جنرل پرویز مشرف کی نگاہ کراچی کی ایک سیاسی جماعت پر پڑی۔ یہ وہی جماعت تھی جسے اپنے اقتدار میں آنے سے پہلے پرویز مشرف ملک کا غدار سمجھتے تھے۔ ہمیں اقوام عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ تخت کے لئے کئی بادشاہوں نے اپنی ماں کابھی تختہ کردیا۔ وطن بھی ماں کی مانند ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جس جماعت کو غدار کہا اسی کے کندھے کا سہارا لیا۔ یہ فیصلہ مئورخ کو کرنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اُس سیاسی جماعت کو غدار کہتے وقت غلط تھے یا اُس کی مدد کی بھیک مانگتے وقت غلط تھے؟ ہندوستان کے شہر امرتسر میں برطانوی راج کے دوران اپریل 1919ء میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہوا جس میں انگریز کرنل ڈائر نے اپنے سپاہیوں کے ذریعے سکھوں پر صرف دس منٹ گولیاں برسائیں۔ ہسٹری آج بھی اِس پر افسردہ ہے۔ کچھ مئورخین کے خیال میں اسی واقعہ سے ہندوستان میں برطانوی راج کے زوال کی شروعات ہوئیں۔ اسی لئے کرنل ڈائر کو برطانیہ واپس بلالیا گیا اور کچھ عرصے بعد اسے فوج سے زبردستی ریٹائر کردیا گیا۔ البتہ معصوم نہتے لوگوں کی سسکتی روحوں کو سکون دینے کے لئے بعد میں ایک سکھ سردار ادھم سنگھ نے اس واقعے کے وقت کے پنجاب کے انگریز گورنر مائیکل اوڈوائیر کو برطانیہ جاکر قتل کردیا۔ سردار ادھم سنگھ کے خیال میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا اصل ماسٹر مائنڈ یہی انگریز گورنر تھا۔ جنرل مشرف ملکی قوانین سے بچنے کے لئے ملک سے باہر چلے گئے لیکن 12مئی 2007ء سمیت اپنے کئی اقدامات سے جڑے سوالات کے جوابات نہیں دے سکے۔ کراچی کے اِس خونی دن کے تین مبینہ فریق جنرل پرویز مشرف، ایک سیاسی جماعت اور افتخار محمد چوہدری تھے۔ 12مئی کی خون ریزی کا ذمہ دار عموماً پرویز مشرف اور اُس سیاسی جماعت کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ اس المناک واقعے کی ذمہ داری افتخار محمد چوہدری پر بھی آتی ہے۔ وہ ایسے کہ جنرل پرویز مشرف اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے اسی رات اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کرچکے تھے جبکہ افتخار محمد چوہدری اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے اسی دن کراچی جانا چاہتے تھے۔ گویا دونوں مخالفین ایک ہی دن اپنے آپ کو طاقتور ثابت کرنے پر بضد تھے۔ افتخار محمد چوہدری کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے تھا کہ کراچی میں ان کی آمد سے کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟ انہیں اپنی شہرت یا معصوم لوگوں کے خون میں سے کسی ایک کا بروقت فیصلہ کرنا تھا۔ اگر اس دن افتخار محمد چوہدری کراچی کا دورہ ملتوی کردیتے اور جنرل پرویز مشرف اسلام آباد میں جلسہ کرلیتے تو اس دن کراچی سرخ نہ ہوتا۔ سب جانتے ہیں کہ ’’جج بحالی تحریک‘‘ میں افتخار محمد چوہدری ایک اکائی تھے جبکہ اصل طاقت وکلائ، میڈیا، سول سوسائٹی، خفیہ عناصر اور دیگر سیاسی جماعتیں تھیں۔ کاش افتخار محمد چوہدری اس دن میڈیا ہیرو بننے کی بجائے کراچی کو قتل عام سے بچا لیتے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج اپریل 1919ء کے جلیانوالہ باغ، دسمبر 1971ء کے ڈھاکہ اور 12مئی 2007ء کراچی کے دن ایک جیسے نہ ہوتے۔

تبصرے بند ہیں.