دگرگوں معاشی حالات سے پریشان پاکستان کے لیے آجکل سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آمدہ تین برس کے دوران ستر ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاںکیسے کی جائیں؟کیونکہ فی الوقت پاکستانی معیشت سے اتنی بڑی رقم یک مشت نکالنا ممکن نہیں مگر اس سوال کاجواب تلاش کرنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت سرگرم ہے لیکن مشکلات و رکاوٹیں اتنی زیادہ ہیں کہ تمام بھاگ دوڑ رائیگاں جاتی محسوس ہوتی ہے البتہ روشنی کی جو ہلکی سی رمق دکھائی دیتی ہے یا امکان ہے وہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے پاکستان کا دیرینہ دوست امریکہ ایک بارپھر دستِ تعاون بڑھا دے اور عالمی مالیاتی اِدارے ادائیگی کے لیے مزید وقت عنایت کردیں آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے ہونے والی نرمی اِشارہ ہے کہ امریکہ اب مزید پاکستان کومعاشی خطرات سے دوچار نہیں دیکھنا چاہتا البتہ پالیسیوں بارے اُس کے کچھ تحفظات ضرور ہیں جس کے تناظر میں کو شش کرنی چاہیے کہ اندھادھند معاہدوں سے ملک کو مزید نقصان نہ پہنچایا جائے اِس میں شائبہ نہیں کہ پاکستانی مال کی آج بھی دنیامیں سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے اور وہ بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے مزید قابلِ تذکرہ بات یہ ہے کہ امریکہ سے تجارت میں توازن پاکستان کے حق میں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر تحفظات کا ظہار کرتے ہوئے نہ صرف بڑی برآمدی منڈی کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ایران سے تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہوسکتا ہے اِس وجہ سے تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو خطرات سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں یہ درست ہے امریکہ کو پاک ایران فروغ پاتے مراسم اِس وجہ سے پسند نہیں کہ وہ علاقائی تبدیلیوں کو اپنے مفاد کے منافی تصورکرتا ہے اور یہ کہ اگر پاکستان موجودہ روش سے نہیں چھوڑتا تو نہ صرف ایک بڑی برآمدی منڈی سے ہاتھ دھو سکتا ہے ۔
معاشی مشکلات کا شکار پاکستان کا علاقائی سطح پرہونے والی تبدیلیوں میں بھی کلیدی کردار ہے ایک طرف امریکہ کے مقابلے میں چین کوترجیح دے چکا ہے حالانکہ چین سے ہونے والی تجارت میں بڑے پیمانے پر خسارے کا سامنا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ کا ایک بڑے وفد کے ساتھ دورہ کرنا اور سرمایہ کاری کا جائزہ لینا نیز شہباز شریف کی طرف سے سعودی تعاون کا خود جائزہ لیتے رہنے کی یقین دہانی کرانا بھی نہایت اہم ہے اِس کے فوری بعدسعودی وزیرِ دفاع کا دفاعی تعاون بڑھانے کے مواقع کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان آنا بھی اہم ہے اِن دوروں کے مثبت اور مستقل ہونے کے بارے تو کوئی شائبہ نہیں البتہ بارآور ہوں گے یا نہیں کسی حد تک شبہات موجود ہیں کیونکہ سرمایہ کاری حاصل کرنے کے چکر میں جائز وناجائز شرائط کابھی خیر مقدم کیا جارہا ہے اہم سعودی حکام کے بعد ایرانی صدر ابراہیم ریئسی پاکستان آئے اِس دوران کئی معاہدے اور سمجھوتوں پر دستخط بھی ہوئے اُن کی آمد ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ممالک میں قربت فروغ پارہی ہے مگر ایسا تاثر پختہ ہورہاہے کہ معاشی مشکلات سے نکلنے کے
لیے قیادت میں حکمت و تدبر کا فقدان ہے اورحقائق کوخاطر میں لائے بغیر بھاگ دوڑ کی جارہی ہے حالانکہ بہتریہ ہے کہ امریکی تنبیہ کونظر انداز کرنے کے بجائے کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالا جائے جس سے کسی کو نظر اندازہونے یا غیر اہم ہونے کا تاثر نہ ملے۔
پاکستان نئی تجارتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے اور دستیاب مواقع بڑھانا چاہتا ہے اِس حوالے سے افغانستان ایران ،سعودی عرب ،قطر،عرب امارات پر پاکستان کی خاص نظر ہے اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام ممالک کے نہ صرف بھارت سے اچھے تعلقات ہیں بلکہ کئی ممالک تو بھارت میں اربوں ریال کی سرمایہ کاری بھی کررہے ہیں یہ ممالک تیل کے متبادل معیشت اُستوار کرنے کے لیے سرگرداں ہیںاِن حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ معاہدے کرتے ہوئے ملکی مفاد پیشِ نظر رکھا جائے یادرہے کوئی ملک کسی پر بغیر فائدے کے لیے احسان نہیں کرتا۔سعودی عرب نے سٹیٹ بینک میں رکھوائے تین ارب ڈالر کی رقم پانچ ارب ڈالر کردی تو خوشی میں ملکی اثاثے کوڑیوں کے بھائو خریدنے کی پیشکش کرنا سمجھ سے بالاترہے ترکی بھی پاکستانی معیشت نچوڑنے میں پیش پیش ہے اب ایران کوبھی ایسے مواقع دینا کم فہمی کو اُجاگر کرتا ہے کیا اِس حقیقت کوجھٹلا یاجاسکتا ہے کہ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران شاہ ایران رضا شاہ پہلوی بھارت کے طرفدار تھے ؟اور اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ مشرقی سرحد پر جنگ کی صورت میں کہیں ایران پیٹھ پر وارنہ کردے کوختم کرنے کے لیے صدر ایوب خان کی ہدایت پر وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایران کا دورہ کیا اور اُس کی شرائط سیندک کا وہ علاقہ جہاں لوہے، تانبے، کاپر اور تیل سمیت قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں ہمیں دے دیں۔ ایرانی سرحد کے قریب سے بلوچستان کے اندر سے پاکستان تیل نہ نکالے بلکہ خرید کر استعمال کرے۔ بھارت سے بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے پاکستان نے ایران کی مذکورہ دونوں شرائط تسلیم کر لیں 1995میں اِس معاہدہ کی اگلے تیس برس کے لیے تجدید کر دی گئی اب پھر شنید ہے کہ ابراہیم رئیسی اسی معاہدے کی تجدید کے لیے پاکستان آئے کیونکہ حالات اِس کے لیے سازگارہیں ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اگر اپنی ایرانی نژاد اہلیہ نصرت بھٹو کی وجہ سے ایران کے بارے نرم گوشہ رکھتے تھے تو اب صدرِ مملکت کے منصب پر بھٹو کا داماد ہے محسن نقوی جیسے طاقتور شخص کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلمدان ہے جنہیں ایران نواز خیال کیا جاتا ہے اسی طرح کچھ اور بااختیار لوگ بھی ایرانی ہم خیال تصورکیے جاتے ہیں اسی لیے معاہدے کی تیسری بار تجدید کا مطالبہ سامنے آیا ہے اگر یہ سچ ہے تو اب جبکہ پاکستان کو بیرونی حملے کا کوئی خطرہ نہیں رہا تو بہتر ہے معاملات طے کرتے وقت ملکی وقار اور مفاد کا تحفظ کیا جائے ایران کی اہلِ پاکستان پر ایک اور اہم ترین نوازش یہ بھی ہے جب نوے کی دہائی میں او آئی سی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقومِ متحدہ سے رائے شماری کرانے کا مطالبہ کرنے کی ایک متفقہ قرارداد پاس کرنے لگی تھی تو بھارت کی ایما پر اُس نے اجلاس سے غیر حاضر ہو کر یہ کوشش ناکام بنا دی تھی وگرنہ جنوبی ایشیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اُس وقت امریکہ بھی اِس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ تھا اُس کے بعد حالات ایسے تبدیل ہوئے کہ سب کچھ ہی بدل کر رہ گیا اب پاکستان اور ایران باہمی تجارت کو دس ارب ڈالر بڑھانے کے دعویدار ہیں مگر اہم سوال یہ ہے کہ ہونے والے معاہدوں، سمجھوتوں اور یادداشتوں پر عمل ہو سکے گا؟ سچ یہ ہے کہ ا حمقانہ معاہدوں سے معاشی حالت بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑ رہی ہے لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ قیادت معاہدے کرتے ہوئے کسی ملک پر مہربان ہونے کے بجائے اِس طرح ریاستی مفاد اور وقار کا تحفظ کرے جو ملک کی معاشی بہتری کے لیے سنگِ میل ثابت ہو۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.