بعض اوقات ایک غلط وقت پر ایک غلط جگہ پر آپ کی موجودگی آپ کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ فروری 2022ء میں جب روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو یہ اتفاق کی بات ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اس وقت روس کے سرکاری دورے پر تھے۔ اس ہفتے جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اچانک پاکستان کا 3 روزہ سرکاری دورہ ’’کھڑکا‘‘ دیا تو پوری دنیا کی سفارتی برادری حیران ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ ایران نے اسرائیل پر براہ راست میرائل حملہ کے فوراً بعد پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کا فیصلہ کیا جو سب سے زیادہ امریکہ کے لیے حیران کن تھا۔ امریکہ کا ردعمل آچکا ہے کہ جو ملک ایران سے تجارت کرے گا اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ یہ سیدھی پاکستان کو دھمکی ہے۔
یہ دورہ اعلیٰ اور پیشہ ورانہ سفارتکاری کی بہترین مثال ہے۔ جس کا زیادہ تر کریڈٹ ایران کو جاتا ہے جس طرح انہوں نے اسرائیل پر حملہ بھی کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہماری طرف سے اس معاملے کو اب ختم سمجھا جائے۔ بالکل اسی طرح ایران نے پاکستان کا دورہ بھی کیا لیکن کشمیر کا ذکر یا بھارت کی مذمت کی گئی اور نہ ہی پاک ایران گیس پائپ لائن پر ایک بھی لفظ نہیں کہا گیا اس سے زیادہ محتاط سفارتکاری ممکن نہیں ہے۔
بلاشبہ ایران دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا یہ تاریخ کا وہ واقعہ ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔ پاکستان فوجی لحاظ سے دنیا کی 8 ویں طاقت ہے جبکہ اس فہرست میں ایران کا 14 واں نمبر ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ایران نے ایٹمی طاقت کے حصول کا 50 فیصد سے زیادہ کام خفیہ طور پر مکمل کر لیا ہوا ہے اور معاشی پابندیوں کے باوجود اس پر کام جاری ہے۔ 2016ء کے بعد یہ کسی بھی ایرانی سربراہ مملکت کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ 2016ء میں صدر حسن روحانی سرکاری دورے پر تشریف لائے تھے۔ حسن روحانی کی پاکستان میں ساری تقریر علامہ اقبال ؒ کے فارسی کلام سے لبریز تھی۔
ہمارے قومی میڈیا حتیٰ کہ عالمی میڈیا میں بھی اس دورے کے جو محرکات بیان کیے جا رہے ہیں
ان میں ایک اہم ترین پیش رفت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ پتہ نہیں کیوں کسی کا اس طرح دھیان ہی نہیں جا رہا۔ اس دورے سے زیادہ اس کے پس منظر اور پیش منظر پر نگاہ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ پاکستان کے سعودیہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اتنی گہری اور ہمہ گیر ہے کہ پاکستان کو اگر سعودیہ اور ایران میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو بلاشبہ قرعۂ فال سعودیہ کے حق میں آئے گا لیکن اس وقت سعودی عرب اور ایران میں چائنہ نے صلح کرا دی ہوئی ہے لہٰذا اب ان کی ریاستی تلخی ختم ہو چکی ہے۔ ایران اسرائیل معاملے میں سعودی عرب خاصا غیر جانبدار ہو چکا ہے۔ اسرائیل اور سعودیہ کو قریب لانے کی ساری امریکی کوششیں 7 اکتوبر کے حماس حملے اور بعد کی صورتحال کی وجہ سے ان پر پانی پھر چکا ہے۔ سعودی عرب امارات اور سارے عرب ممالک نہیں چاہتے کہ کہ مشرقی وسطیٰ ایران اور اسرائیل کے درمیان میدان جنگ بنے کیونکہ اس سے انہیں براہ راست نقصان ہو گا تیل کی ترسیل کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور گلف میں جہاں جہاں امریکی اڈے موجود ہیں جب وہاں سے ایران پر میزائل حملے ہوں گے تو ایران جوابی طور پر امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا جو کہ عرب ممالک کی سرزمین پر ہیں۔ اس طرح یہ سارے ممالک جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
ہمارے تجزیہ کار یہ نقطہ نظر انداز کر گئے کہ ایرانی میزائل حملوں کے فوراً بعد سعودی عرب کا اعلیٰ سطحی وفد وزیر خارجہ فیصل بن فرحال السعودکی سربراہی میں اسلام آباد پہنچ گیا جس کے غالباً 3 دن بعد ایرانی صدر اسلام آباد لینڈ کر چکے تھے ان دو واقعات کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک بالواسطہ سفارتی مذاکراوت پاکستان کے توسط سے ہو رہے ہیں۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ایرانی صدر کے دورے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اس ہفتے ایک بار پھر سعودی عرب روانہ ہونے والے ہیں۔ پاکستان ان دو ممالک کے درمیان ہم آہنگی کی راہیں ہموار کرنے میں اپنا خاموش کردار ادا کر رہا ہے اور جب تک یہ نتیجہ خیز نہیں ہوں گے تب تک ان کو خفیہ رکھا جائے گا۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر اسرائیل اور ایران کے درمیان معاملہ کھلی جنگ تک پہنچ گیا تو ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگیں گی جس کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن یا سستی گیس اور پٹرول کا امکان ختم ہو جائے گا۔ دوسری طرف پاکستان اپنے سعودی دوستوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایران کو قائل کر رہا ہے کہ جنگ سے اجتناب کیا جائے۔ یہ بڑی پیچیدہ صورتحال ہے۔
اس ساری کہانی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان امریکہ کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر آپ ہمیں نظر انداز کرنا جاری رکھیں گے تو پاکستان کے پاس ریجنل آپشن کے طور پر چائنہ اور ایران موجود ہیں۔ ابراہیم رئیسی نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ باہمی تجارت کا حجم 2 ارب ڈالر سے بڑھا کر 10 ارب ڈالر کیا جائے گا۔ اس تجارت کے لیے تو مال کے بدلے مال کی بنیاد پر کام ہو سکتا ہے جس میں بینکوں کی معاونت بھی نہیں ہوتی۔
اگر سمگل شدہ ایرانی تیل مارکیٹ میں اتنے بڑے پیمانے پر بک سکتا ہے تو اسے قانونی شکل کیوں نہیں دی جا سکتی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب انڈیا اور چائنہ امریکی مخالفت کے باوجود ایران سے سستا تیل خرید رہے ہیں تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان نہ چائنہ ہے اور نہ انڈیا کہ وہ امریکہ کے آگے مزاحمت کر سکے۔ اگر پاکستان ایسا سوچے گا تو سب سے پہلے آئی ایم ایف جس میں سب سے بڑا شیئر امریکہ کا ہے وہ پاکستان کو قرضہ دینے سے انکار کر دے گا۔ ہمیں حقیقت پسندی سے معاملات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سارے معاملے میں ایک بات طے ہے کہ ایرانی صدر کے دورے سے ایک طرف تو اسرائیل کے اندر بے چینی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے دوسری طرف پاکستان نے اس دورے کی میزبانی کے ذریعے اپنی bargaining power میں کئی گنا اضافہ کر لیا ہے اور امریکہ کو خاموش پیغام دے دیا ہے۔ تیسرا عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں مزید بہتری اور اعتماد سازی کا عنصر مضبوط ہوا ہے۔ اس دورے کی سب سے زیادہ ٹینشن انڈیا کو ہے کہ پاکستان ایک دفعہ پھر میچ میں واپس آ رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.