تحریک انصاف کے لئے ضمنی انتخابات میں ہر دو صورت راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ان انتخابات کے نتائج سے مرکز یا صوبائی حکومتوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن تحریک انصاف نے الیکشن سے پہلے حسب روایت سوشل میڈیا پر عوامی مقبولیت کے حوالے سے خوب ڈھول پیٹے حتیٰ کہ قصور جو کہ ہمارے خیال میں اس وقت لاہور سے بھی زیادہ نواز لیگ کا گڑھ بن چکا ہے اس کے متعلق بھی بڑے وثوق سے پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہاں سے بھی تحریک انصاف جیتنے جا رہی ہے اور ملک میں انقلاب کی سی کیفیت ہے اور ہر طرف تحریک انصاف اور عمران خان کا طوطی بول رہا ہے اور 21 اپریل کا سورج انقلاب کی نوید لے کر طلوع ہو گا لیکن اس تمام تر پروپیگنڈا کے باوجود بھی تحریک انصاف کو باجوڑ سے قومی اسمبلی کی سیٹ اور وزیر آباد سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے تحریک انصاف والوں پر کوئی اثر پڑا ہو گا تو یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ جس طرح عرض کیا کہ ان ضمنی انتخابات کے حوالے سے راوی تحریک انصاف کے لئے چین ہی چین لکھ رہا تھا اگر ان انتخابات میں تحریک انصاف جیت جاتی تو وہ شور ہونا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دینا تھی اور اس جیت کو انقلاب سے کم سطح پر لینا ہی نہیں تھا اور اب شکست کے بعد وہی دھاندلی کا رونا اور واویلا شروع ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ مزید کچھ عرض کریں دھاندلی کے حوالے سے چند گذارشات کہ دھاندلی صرف الزامات لگانے سے ثابت نہیں ہو جاتی بلکہ دھاندلی کے اپنے کچھ فطری شواہد ہوتے ہیں جو کچھ تو خفیہ ہوتے ہیں لیکن ان کے اشارے الیکشن سے پہلے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دوسرا الیکشن والے دن جگہ جگہ ہنگامہ آرائی، بیشتر پولنگ اسٹیشنز پر جعلی مہریں اور ٹھپے لگاتی وڈیوز نتائج آنے سے پہلے ہی منظر عام پر آنا شروع ہو جاتی ہیں لیکن اس طرح کی صورت حال کہیں نظر نہیں آئی۔ اکا دکا مقامات پر کچھ بد انتظامی ہوئی لیکن یہ معمول کا حصہ تھی بلکہ سیالکوٹ میں تو الٹا نواز لیگ کے کارکن کو تحریک انصاف کے لوگوں نے ڈنڈوں سے تشدد کر کے مار ڈالا۔اس کے بعد اس بار تو تمام نتائج فارم 47 کے مطابق بتائے جا رہے تھے اور پھر دھاندلی کے حوالے سے ہی ایک اورانتہائی اہم نقطہ کہ دھاندلی سے تھوڑا بہت فرق پڑ جاتا ہے لیکن اگر آپ تمام نتائج کا بغور جائزہ لیں تو قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کم سے کم جیت کا مارجن 25ہزار اور زیادہ سے زیادہ مارجن 88ہزار 8سو سے زیادہ ہے۔ اسی طرح صوبائی سیٹوں پر بھی کوئی سیٹ دو چار سو کے فرق سے نہیں جیتی گئی بلکہ ہزاروں کے مارجن سے جیتی گئی ہیں تو اس صورت میں کہ جب مجموعی طور پر صورت حال پر امن رہی ہو۔ کہیں سے ٹھپے اور اس طرح کی خبریں بھی نہ ملی ہوں اور فتح اور شکست کے درمیان ہزاروں ووٹوں کا فرق ہو تو وہاں دھاندلی ہونے کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں کہ ان ضمنی انتخابات کے نتائج کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر تو ان انتخابات میں تحریک انصاف کو اسی طرح فتح ملتی کہ جیسے 2022 میں دو مرتبہ ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ملی تھی کہ صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں میں سے 15اور قومی اسمبلی کی 8میں سے6نشستوں پر کامیابی ملی تھی تو عام انتخابات میں تحریک انصاف اور کچھ دیگر جماعتوں کا دھاندلی کے حوالے سے جو بیانیہ ہے اسے بہت زیادہ تقویت ملنا تھی اور بجا طور پر یہ بات کہی جانی تھی کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے لہٰذا عوام نے اب فارم 47 کا پہرہ دے کر اس کو ثابت کر دیا ہے اور ایسی صورت حال میں حکومت پر حقیقی معنوں میں بہت زیادہ دباؤ آ جانا تھا اور حزب اختلاف دھاندلی کو لے کر جو تحریک چلانے والی تھی اس تحریک کے مردہ گھوڑے میں بھی جان پڑ جانا تھی لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا بلکہ جیسا کہ عرض کیا کہ تحریک انصاف نے ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ کھو دی ہے تو اس سے بلا شبہ حکومت کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے اور حکومت کے خلاف تحریک میں تو ویسے ہی دم نہیں تھا لیکن اب یہ کام مزید مشکل ہو جائے گا۔
دھاندلی کے حوالے سے جو سب سے بہترین بیان ہے کہ جو حقیقت کی مکمل اور درست نشاندہی کرتا ہے وہ گذشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری نے دیا تھا کہ مولانا فضل لرحمن کو اگر دھاندلی کے خلاف تحریک چلانی ہے تو وہ خیبر پختون خوا میں چلائیں۔ ان کی یہ بات سو فیصد درست تھی اس لئے کہ پنجاب اور سندھ میں تو مولانا کی جماعت کا کوئی خاص ووٹ بنک نہیں ہے جبکہ بلوچستان سے وہ صوبائی اسمبلی کی گیارہ نشستیں جیتے ہیں اور پشین سے قومی اسمبلی کی نشست پر وہ خود کامیاب ہوئے ہیں تو ان کا سب سے زیادہ ووٹ بنک تو خیبر پختون خوا میں ہے تو اگر ان کی جماعت کو دھاندلی سے کسی نے ہرایا ہے تو دیکھیں کہ خیبر پختونخوا میں کس جماعت نے کلین سویپ کیا ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جس نشست سے خود مولانا کو شکست ہوئی ہے وہاں سے انھیں کسی اور نے نہیں بلکہ علی امین گنڈا پور نے شکست دی ہے تو مولانا کو اگر دھاندلی کے خلاف تحریک چلانی ہے تو وہ بلاول بھٹوکے بیان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور جنھوں نے ان کے خلاف دھاندلی کی ہے ان کے خلاف تحریک چلائیں۔ دوسرا ایمل ولی نے حکومت کے خلاف چلائی جانے والی مجوزہ تحریک کا حصہ بننے سے چٹا انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اب عوام اس شدید گرمی میں کسی تحریک کا حصہ بننے کے بجائے ہمارے خیال میں خیبر پختون خوا حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے کہ 9سال پہلے حکومت کی ہے اور اب پھر تیسری بار پھر انھیں حکومت ملی ہے تو دیگر تینوں صوبوں کے ساتھ اب یقینا تقابل ہو گا کہ ان کے مقابلہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کیسی ہے لہٰذا تحریک انصاف اگر تحریک کے بجائے اپنی کارکردگی کی طرف توجہ دے تو یہ اس کے لئے زیادہ بہتر ثابت ہو گا۔
تبصرے بند ہیں.