پنجاب کو آدھا پاکستان اس لئے کہا جاتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے یہ صوبہ پورے ملک کا نصف ہے اور اگر ترقی و قانون پر عملدرآمد کی بات کی جائے تو آپ اس صوبے کو پورا پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ پنجاب میں سابق فاٹا۔ کراچی اور دیگر شہروں اور سندھ۔ بلوچستان کے دیہاتوں۔ گوٹھوں کی طرح ”کنڈوں“ سے بجلی چوری نہیں کی جاتی بلکہ پنجاب کے عوام تنگدستی میں بھی بھاری بھرکم بل ادا کرتے ہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی ایک بل نہ بھر سکیں تو بجلی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پنجاب میں آبادی زیادہ ہونے کے باوجود جرائم کا تناسب سندھ۔ بلوچستان اور کے پی کے سے کم ہے۔ بد ترین حالات میں بھی پنجاب کی عدالتوں میں دیگر صوبوں کی نسبت انصاف جلد مل جاتا ہے۔ مہنگائی نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے پنجاب بھی اس کی زد میں ہے اس کے باوجود پنجاب کے لوگ سبزی۔ فروٹ اور اشیائے ضرورت خرید کر گھر لے کر جاتے ہیں۔ پنجاب ہی واحد صوبہ ہے جہاں دفاتر میں سر عام ”بریف کیس“ کا لین دین نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ نہیں کہ پنجاب میں رشوت کا کلچر نہیں ہے میں مجموعی تاثر کی بات کر رہا ہوں۔ پنجاب میں آج بھی اشارہ کاٹنے والے کو بھی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا۔۔۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔۔ یہ شعر پنجاب پر فٹ بیٹھتا ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی صوبہ قانون پر عملدرآمد کرانے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ پنجاب ہے۔ پنجاب کے ساتھ ماضی میں سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کو شکوے رہے ہیں ان میں سے بہت سے جائز بھی ہوں گے اب یہ شکائت دیگر صوبوں یہاں تک پنجاب ہی کے ایک حصے جنوبی پنجاب کے باسیوں کو بھی ہے کہ پنجاب کی حکومت کو "تخت لہور” کی سخت اور بد ترین اصطلاح سے مخاطب کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پنجاب نے بہت اچھے اور بدترین حکمران دیکھے ہیں ماضی قریب کی بات کریں تو چودھری پرویز الٰہی۔ شہباز شریف پنجاب کے بہترین حکمران رہے ہیں جبکہ بدترین کا ذکر ہوگا تو عثمان بزدار کو کون بھول سکتا ہے۔ آج پنجاب کی حکمران کی بات کریں تو پنجاب کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون اس منصب پر براجمان ہیں۔ مریم نواز شریف نے اپنی سیاسی اننگز بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شروع کی ہے اور کیا شاندار آغاز کیا ہے۔ مریم نواز شریف نے زندگی میں پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا اور بیک وقت قومی و صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب رہیں۔ قومی اسمبلی کی نشست تو چھوڑنا پڑی کہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ رکھنا تھی ہمارے ملک کا قانون ہے کہ خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوتا ہے۔ اس بار بھی ہوا مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ ہیں اور ان کے ناک کے عین نیچے ضمنی انتخاب ہورہا تھا مجال ہے جو انہوں نے مداخلت کی کوشش بھی کی ہو۔ ماضی قریب میں چودھری پرویز الٰہی۔ میاں شہباز شریف۔ عثمان بزدار اور حمزہ شہباز شریف پر ضمنی انتخاب میں مداخلت کا الزام لگتا رہا ہے۔ ان وزرائے اعلیٰ کو الیکشن کمیشن متعدد نوٹس بھی جاری کرچکا بلکہ معمولی و بھاری جرمانے بھی بطور سزا ان سے وصول کرچکا۔ مریم نواز نے ان ضمنی انتخابات میں کوئی مداخلت نہ کرکے نئی روائت قائم کی اس حساب سے انہیں نئی روایات کی امین قرار دینے میں حرج نہیں۔ آپ نے ضمنی انتخاب سے پہلے یا اس دوران کوئی گلی۔ نالی یا سڑک بنتی دیکھی ہو۔ انتخابی جلسوں میں ترقیاتی سکیموں کے اعلانات اور ووٹرز کو کوئی لالچ تک نہ دیا گیا اور نہ پولیس فورس استعمال ہوئی۔ پنجاب کے عوام نے بدترین مہنگائی کے باوجود ن لیگ کو ووٹ دیا اور ن لیگ نے نہ صرف اس کی اپنی چھوڑی ہوئی سیٹیں واپس لیں بلکہ سنی اتحاد کونسل سے بھی نشستیں چھین لیں۔ پنجاب کے ووٹر نے مریم نواز شریف کی حکومت پر بھرپور اعتماد کیا ان کی ڈیڑھ ماہ کی کارکردگی کا "نتیجہ” ضمنی انتخاب میں ن لیگ کو مل گیا۔ مریم نواز شریف نے نئی روائت قائم کی ہے ہم امید کرتے ہیں یہ سلسلہ دیگر صوبوں تک پھیلے گا۔
تبصرے بند ہیں.