جماعت اسلامی کا قافلۂِ سخت جاں اور حافظ نعیم الرحمن

82

لگ بھگ 83 برس بعد، جماعت اسلامی کا قافلۂِ سخت جاں سید مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق سے ہوتا ہوا، عروس البلاد کراچی کے مردِ آتش بجاں، حافظ نعیم الرحمن تک آن پہنچا ہے۔ سید مودودی نے آغازِ سفر میں ہی طے کر دیا تھا کہ معاشرے کی ہمہ گیر اصلاحِ احوال اور اسلامی نظام کی ترویج کے لیے سختی کے ساتھ آئینی و قانونی حدود کے اندر رہنا ہے۔ سو جماعت آج بھی بڑی حد تک اسی راستے پر کاربند ہے۔ اپنے نظریے اور نصب العین پر ایمان کی حد تک پختہ یقین رکھتی ہے۔ کڑے نظم و ضبط کے باوجود مختلف امرائے جماعت کا اندازِ فکر و عمل اور مزاج، جماعت کی پالیسیوں پر ضرور اثرانداز ہوتا رہا لیکن اُس نے آئینی و قانونی راستوں سے گریز نہیں کیا۔ مولانا مودودی کے عہدِ امارت کے بعد کے باون برسوں میں سے پندرہ سال پنجاب (میاں طفیل محمد)، پانچ سال کراچی (سید منور حسن) اور بتّیس برس خیبر پختون خوا (قاضی حسین احمد21 اور سراج الحق11 برس) کے حصّے میں آئے۔ اب ایک بار پھر کہستانی فکر، سید منور حسن کے دبستان کی طرف پلٹی ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ اِس بحر کی تہہ سے کیا اچھلتا اور گنبد نِیلوفَری کیا رنگ بدلتا ہے؟

1970 کے پہلے انتخابات جماعت اسلامی نے اس طمطراق سے لڑے کہ شرق و غرب میں غلغلہ سا بپا ہو گیا۔ یوں لگا جیسے جماعت اسلامی، مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کے عزائم خاک میں ملا دے گی اور مغربی پاکستان میں، اسلامی سوشلزم کا علمبردار بھٹو ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔ 31 مئی 1970 کا ’’یومِ شوکت اسلام‘‘ آج تک جماعت کے معمّر کارکنوں کے دِل میں یادِ یارِ مہرباں کی طرح خوشبوئیں بکھیرتا رہتا ہے۔ 7 دسمبر 1970 کے انتخابی نتائج جماعت کے لیے ہلاکت آفریں حد تک مایوس کن ثابت ہوئے۔ گذشتہ چوّن برس کے سفر کی کہانی، ان نتائج کی بازگشت کے سوا کچھ نہیں۔

جماعت نے 1988 اور 1990 کے انتخابات، ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ کے پرچم تلے لڑے اور اس کے اہم راہنما پارلیمنٹ کا حصہ بنے۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے ’’اتحادی سیاست‘‘ کو اپنی بلند پروازی میں مانع جانا۔ 1993 کے انتخابات میں وہ نہ صرف آئی جے آئی سے کنارہ کش ہو گئے بلکہ جماعت اسلامی کی انتخابی حکمتِ عملی کو بھی بے آب و رنگ خیال کرتے ہوئے ’’پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ کے شوخ و شنگ پرچم تلے میدان میں اُترے۔ یہ منفرد تجربہ بھی بے ثمر رہا۔ بے دِلی کا شکار جماعت نے 1997 کے انتخابات میں حصّہ ہی نہ لیا۔ اُسے پوری انتخابی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی 2002 میں مشرف عہد کے انتخابات میں ملی جب وہ ’متحدہ مجلس عمل‘ کا حصہ تھی۔ ایم ایم اے نے قومی اسمبلی کی 63 نشستیں جیت لیں۔ خیبر پختون خوا میں اس کی حکومت بھی قائم ہو گئی۔ جماعت اس حکومت کا حصہ بنی۔ خزانہ کی اہم وزارت جناب سراج الحق کے پاس تھی۔ اس تجربے کو جاری رکھنے اور مستحکم بنانے کے بجائے، جماعت نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ 2013 میں، جماعت نے ایک بار پھر اتحادی سیاست سے کنارا کرتے ہوئے تنہا پرواز کو ترجیح دی۔ 166 امیدوار قومی اسمبلی میں اتارے۔ تین کو کامیابی حاصل ہوئی۔ 2018 کے انتخابات میں جماعت پھر متحدہ مجلسِ عمل کی طرف لوٹ گئی لیکن 2002 کو گذرے سولہ برس ہو چکے تھے۔ ایم ایم اے صرف بارہ سیٹیں ہی لے پائی۔ جماعت کے حصے میں صرف ایک نشست آئی۔

فروری 2024 کے انتخابات میں مذہبی یا مسلکی تشخّص رکھنے والی تمام جماعتوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ لیکن جماعت اسلامی کو شاید اپنی تاریخ کی سب سے دلخراش ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اس نے مجموعی طور پر 774 امیدوار میدان میں اتارے۔ قومی اسمبلی کے 231 امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہوا۔ صوبائی اسمبلیوں کے 543 امیدواروں سے غالباً دو یا تین فاتح ٹھہرے۔ پنجاب اور خیبرپختون خوا کی اسمبلیوں میں اس کا کوئی رُکن نہیں۔ اور یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جماعت کی کوئی نمائندگی نہیں۔ سراج الحق نامی انتہائی فعال و محترک ’’مردِ کہستانی‘‘ کا کمالِ نے نوازی، جماعت کے کچھ کام نہ آیا۔

جماعتِ اسلامی پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے۔ اس کے امیر کا انتخاب حقیقی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کوئی دوسری جماعت منصورہ جیسا ہیڈ کوارٹر نہیں رکھتی۔ اس کے کارکنوں کا اخلاص، ایثار اور جذبۂِ کار بھی مثالی ہے۔ اس کی انتخابی مہم کا بانکپن بھی دیدنی ہوتا ہے۔ سماجی خدمات کے شعبے میں بھی وہ انتہائی متحرک ہے۔ لوگ اس کی امانت و دیانت پر اعتماد کرتے ہیں۔ عطیات دیتے ہوئے وہ ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے، لیکن ووٹ دیتے وقت وہ ان کی ترجیحات سے یکسر نکل کیوں جاتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو جماعت اسلامی کے وابستگان ہی نہیں، اُس سے ذہنی و فکری ہم آہنگی رکھنے والوں کے سامنے بھی چوّن برس سے پھَن پھیلائے کھڑا ہے۔

اِک عمر جماعت اسلامی کی نذر کر دینے والے مردِ قلندر، خرّم مراد مرحوم نے بڑی دردمندی و دل سوزی کے ساتھ اپنی خود نوشت ’’لمحات‘‘ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1970 کے انتخابات میں ناکامی کو ’’جماعت کی تاریخ کا سب سے اعصاب شکن واقعہ‘‘ قرار دیتے ہوئے مرحوم نے کہا تھا … ’’سوچنا ہو گا کہ ہمیں عوامی تائید کیوں نہیں حاصل ہو رہی؟ اور اگر عوامی تائید حاصل نہ ہوئی تو ہمارے لیے انتخابات میں نتائج کس طرح اچھے نکل سکتے ہیں؟ انتخابات میں نتائج اچھے نہ نکلیں گے تو پھر انتخابات میں حصّہ لینے کا کیا فائدہ ہو گا؟ محض شہادتِ حق اور دعوتِ دین کے لیے انتخابات کے علاوہ بھی شاید کچھ بہتر ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے یہ کام ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم محض تبلیغِ کے لیے نہیں، قیادت کی تبدیلی کے لیے کام کر رہے ہیں اور اگر یہی رفتار رہی تو اس کام کا کیا ہو گا؟ کون سی کمی اور کون سی خامی ہے یا پھر یہ ہماری حکمتِ عملی اور نظامِ کار کا ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے؟ کیا ہمیں اپنے دائرۂِ کار، عملی رجحانات اور اقدامات میں کہیں تبدیلی کی ضرورت نہیں؟ ہم اپنا سچ اور صحیح صورتِ حال پیش کرنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟ انتخابی مہم چلانے میں ہمارا انداز کیوں بے اثر ہے؟‘‘ برادرِ عزیز سلیم منصور خالد کی مرتب کردہ اس کتاب کو شائع ہوئے بھی پچیس برس ہونے کو ہیں، خرم مراد کے سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔

دو بڑی جماعتوں سے نا مطمئن پاکستانیوں کو کسی نئی متبادل سیاسی قوت کی تلاش ہمیشہ رہی ہے۔ تلاش کی اس خلش کو تحریکِ انصاف نے آسودہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وطنِ عزیز کے پورے سیاسی، جمہوری، اخلاقی، معاشی، تہذیبی اور سماجی ڈھانچے کو تہس نہس کر دیا۔ کاش یہ خلا جماعت اسلامی پُر کر سکتی۔

ہمدم دیرینہ، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے اپنے حالیہ کالم میں کسی صاحبِِ دانش کا قول نقل کیا ہے کہ ’’جماعت اسلامی کو دعا تو دی جا سکتی ہے مشورہ نہیں۔‘‘ جماعت کو تو دعا دینے کا مطلب بھی یہ ہے کہ ہم خود کو اہلِ جماعت سے زیادہ صالح، پرہیز گار اور نیکو کار سمجھتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی گستاخی ہی لگتی ہے۔ اس کے باوجود دِل حافظ نعیم الرحمن کے لیے نیک خواہشات سے چھلکا جا رہا ہے۔ کیا عجب یہ مردِ ہنرکار قومی سیاست کے ایک قابل قدر سرمائے کو جمہوری ایوانوں کا معتبر اثاثہ بھی بنا سکے۔

تبصرے بند ہیں.