یزید وقت سے دور رہیں

61

چونتیس ہزار فلسطینی خواتین اور بچوں کی شہادت نے قربانیوں کی ایسی داستان رقم کی ہے جو آنے والے ماہ و سال میں کسی بھی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا لہو گرماتی رہے گی اور انہیں نئی راہ دکھاتی رہے گی جس پر چل کر وہ غلامی سے نجات حاصل کر سکیں گے اور فخر سے سر اٹھا کر جی سکیں گے، فلسطینیوں کی بے مثال مزاحمت کے بعد ایران کے اسرائیل پر کامیاب حملے نے دنیا پر اسرائیل کی طاقت، گھمنڈ اور پراپیگنڈے کے زور پر ناقابل تسخیر ہونے کے مفروضے کو زمین بوس کر دیا ہے، امریکہ، یہودی نواز یورپی طاقتوں اور خود اسرائیل حکومت و قیادت کی سب سے بڑی پریشانی یہی ہے وہ دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، ان کے مظالم کا بھانڈاپھوٹ چکا ہے، کل تک جو ملک ان کے ہمنوا تھے آج ان کے خلاف صف آرا ہوتے نظر آتے ہیں، اسرائیل کے خلاف نفرت کی ایک لہر ہے جو بلند تر ہوتی نظر آتی ہے۔ اقوام عالمنے ظالم کا چہرہ پہچان لیا ہے۔ دنیا بھر میں متعصب دانشوروں کو ایران کی طرف سے یہ دلیرانہ اقدام کچھ پسند نہیں آیا، اس تعصب میں وہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ اس کی تباہ کاریاں اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو بھول گئے انہیں یہ بھی نہ یاد رہا کہ گزشتہ نصف صدی سے زائد کے عرصہ میں کتنے فلسطینی شہید کئے گئے انہیں سوائے ایران کے کسی ملک کی طرف سے کسی قسم کی امداد میسر نہ تھی۔ بیشتر مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے، اپنے کاروبار کو فروغ دینے اور دیگر مسلمان ملکوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سبق پڑھاتے رہے، فلسطین اگر آج تک آزاد نہیں ہو سکا تو اس کا جتنا ذمہ دار اسرائیل و امریکہ ہے اتنے ہی ذمہ دار بعض اسلامی ملک بھی ہیں۔ ماہ رمضان میں اڑھائی کروڑ افراد نے عمرہ کی سعادت حاصل کی ان کا نصف اگر اپنی جوتیاں کر ہی اسرائیل کے سر پر برسا دیتا تو فلسطین آزاد ہو جاتا لیکن حیف، اسرائیل کے خلاف دوٹوک موقف اختیار کرنے کے بجائے وسائل سے مالامال ملک ہونٹ سیئے بیٹھے رہے بلکہ فلسطین کی حمایت کرنے والوں کو اسرائیل کی طاقت سے ڈراتے رہے۔ پاکستان میں اسرائیل و یہودی ایجنٹوں کو یاد ہونا چاہئے کہ کون سا ظلم نہ تھا جو بے گناہ فلسطینیوں پر نہ ڈھایا گیا، آج غزہ کھنڈر بن چکا ہے اسرائیل کی طرف سے گزشتہ چھ ماہ دن رات بمباری اور آرٹلری کی توپوں سے اگلتی آگ نے رہائشی آبادیاں، سکول، ہسپتال راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے ہیں۔ غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر رفاہی اداروں کی طرف سے امدادی سامان زخمیوں اور بے گھروں تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹیں موجود ہیں، 75ہزار افراد زخمی ہیں، انکے پاس خوراک پانی اور ادویات موجود نہیں لیکن وہ اپنے حق اور اپنے موقف سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں، ایسے میں صرف ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر فلسطینیوں کی ہرممکن امداد کی، جواب میں اس آواز کو خاموش کرانے کیلئے اس کے دیگر ممالک میں سفارتخانے نشانے پر رکھ لئے گئے، کیا اب بھی ایران خاموشی سے تماشا دیکھتا اور ایک رخسار کے بعد دوسرا رخسار پیش کرتا، غیرت مند اقوام کا یہ شیوہ نہیں ہوتا پس ایران نے جو قدم اٹھایا وہ صد فیصد درست ہے۔ اسلامی دنیا کو اس کے ہاتھ باندھنے کے بجائے اس کی پشت پر کھڑا ہونا چاہئے۔

ایران کے کامیاب حملے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی نے اسرائیلی حکومت اور فوج کے ہوش اڑا دیئے ہیں، انہیں جو نقصان اٹھانا پڑا ہے اس کی تفصیلات کوچھپایا جا رہا ہے تاکہ کسی نہ کسی حد تک اس کا بھرم قائم رہے جو اب قائم نہیں رہا۔ اسرائیلی حکومت کے روزانہ کی بنیاد پر ہونے پر اجلاسوں کا ایجنڈا یک نکاتی ہے کہ ایران کے حملے کا جواب کیسے دیا جائے اور اگر اس حملے کے جواب میں ایران نے ایک اور بڑا حملہ کر دیا تو پھر کیا ہوگا۔

ایرانی بیلسٹک میزائل گرنے کے بعد تل ابیب میں کہرام برپا تھا، شہریوں کی بڑی تعداد پناہ گاہوں کی طرف دوڑ پڑی، صبح سویرے سے ایئرپورٹ پر علاقہ چھوڑنے والوں کا اژدھام نظر آیا، لمبی قطاریں اور چیختی چلاتی نیتن یاہو کو کوستی عورتیں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتی نظر آئیں۔ دوسری طرف ایران میں جشن کا منظر تھا، شہریوں کی بڑی تعداد جن میں عورتیں، بچے، بزرگ اور جوان شامل تھے دیوانہ وار گھروں سے باہرنکلے انہوں نے حکومتی اقدام کو سراہا اوراسرائیل کو فلسطین سے نکالنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ایرانی خوب جانتے ہیں کہ دنیا میں ان کے حقیقی دوست نہ ہونے کے برابر ہیں، زبانی جمع خرچ کرنے والے، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے گھروں میں بیٹھ کر باتیں بنانے والے بہت ہیں، انہیں یہ بھی ادراک ہے کہ جنگ وسیع ہونے پر ایران کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن وہ ہر مشکل وقت میں اپنی حکومت اور اس کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں، کسی ایرانی کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں وہ اپنے سے بڑے اور طاقتور دشمن کا ہر طرح سے مقابلہ کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برس سے عالمی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن ان کے حکومتی اور عوامی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، سول ایرانی قیادت اور فوجی قیادت امریکی اور اسرائیلی حملوں کی زد پر رہی ہے، وہ قربانیاں دیتے رہے ہیں آئندہ بھی دیتے رہیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے اہل خاندان نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے، ایران کے علاوہ چھپن اسلامی ملک کرہ ارض پر موجود ہیں، وہ وسائل سے مالامال ہیں بغیر جنگ کے بھی اگر وہ فلسطین اور ایران کے موقف کے ساتھ آن کھڑے ہوں تو فلسطین آزاد ہوسکتا ہے لیکن افسوس سب کا رویہ خواجہ سراؤں سے مختلف نہیں۔ وہ وقت بے وقت تالیاں پیٹنے کے علاوہ کچھ اور کرتے کبھی نظر نہیں آئے، ایران کے اسرائیل پر حملے کے خلاف موقف رکھنے والوں کو چاہئے کہ وہ کسی اور خواجہ سرا کی طبیعت رکھنے والے ملک سے اسرائیل پر حملہ کرا لیں اور یہ کریڈٹ اسے دے دیں لیکن فلسطین کی آزادی فلسطینیوں کے قربانیوں اور ان کے مضبوط حلیف ایران کے خلاف اور ان کے دشمنوں کی ترجمانی سے گریز کریں وہ اپنے طرز عمل سے اسلام کی خدمت نہیں کر رہے بلکہ وقت کے یزید کے ساتھ کھڑے ہیں اس سے دور رہیں۔

تبصرے بند ہیں.