گزشتہ ہفتہ ایران نے اسرائیل پر میزائل پھینک کر دنیا میں کھلبلی مچادی، یہ میزائل اسرائیل کی جانب سے گزشتہ کئی ماہ سے جاری غزہ پر ڈھائی جانے والی قیامت صغرہ، ہسپتالوں پر داغے بارود، ننھے بچوں کی چیخوں، شیر خوار بچوں کی شہادت پر غم و غصہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر فضائی حملے اور شہادتوں کے جواب میں اسرائیل کو ایک ”چتاونی“ تھی۔ اسرائیل کے ظلم و ستم کے حامی یورپی ممالک اور اسرائیل کی پشت پر موجود امریکہ نے کھلبلی مچادی، ایران کا یہ حملہ مکمل طور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ملک رکن ممالک پر مسلح حملہ کرتا ہے (سفارت خانہ بھی اس ملک کا حصہ سمجھا جاتا ہے) تو جب تک سلامتی کونسل ضروری اقدامات نہ کرے امن و امان کی خاطر اپنے دفاع کا حق ہے، امریکہ کو ایران کی طاقت کا علم تھا اسلئے ابتدا میں اسرائیل کی مدد کا بیان دیا مگر بعد میں کوشش کی کہ اسرائیل کوئی جوابی حملہ نہ کرے۔ ایران کے میزائل حملے سے نہ ہی غزہ کے تباہ حال لوگوں کو کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوا اور نہ ہی اسرائیل کو کوئی واضح نقصان لیکن غزہ کے معصوم لوگوں نے اسکا جشن ضرور منایا۔ امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے فوائد ہیں وہ بھی نہیں چاہتا کہ اسرائیل کے غزہ، فلسطین حملوں کے نتیجے میں کوئی اور ملک بھی آئے خاص طور پر مشرق وسطیٰ یا مسلمان ملک، مسلمان ملک بھی امن کے خواہش مند ہیں وہ بھی علاقے کو جنگ کی آگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے اسوقت دنیا معاشی کشمکش کا شکار ہے اور جنگیں معیشت کو مزید تباہ کرنے میں ایک اہم عنصر ہے۔ مگر یہ یورپی ممالک، امریکہ اسرائیل کو لگام کیوں نہیں دیتے کہ وہ دہشت گرد اسرائیل کو لگام دیں، جو تکلیف ایران کے حملے سے اسرائیل کے حامیوں کو پہنچی ہے، جب بھارت جو اسرائیل کا ساجھے دار اور کسی طور پر بھی مسلما ن دشمنی میں اسرائیل سے کم نہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر میں ظلم ڈھا رہا ہے ہزاروں جانیں شہادت کا رتبہ پاچکی ہیں، ہزاروں جیلوں میں ہیں، ہزاروں عورتوں کی بھارتی درندوں نے عصمت لوٹی ہے یہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آتا اور نہ ہی کسی کی آواز اٹھتی ہے صر ف اسلئے کہ بھارت سے انکے معاشی فائدے منسلک ہیں،انکی آنکھوں پر پٹی اور کان بہرے ہیں کشمیر کے سلسلے میں انہیں اقوام متحدہ کی قراردادیں نظر نہیں آتیں۔ سلامتی کونسل کس مرض کی دوا ہے؟؟؟ وہ کیوں نہ بھارت اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرتی ہے نہ سفارتی بائیکاٹ کیا جاتا ہے اگر اسرائیل، ایران کا مسئلہ اسرائیل کی بے وقوفی کی وجہ سے سنگینی اختیار کرتا ہے تو کرہ ارض پر ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے قیامت سے پہلے آخری جنگ ہوگی امریکہ یہ بخوبی جانتا ہے اسلئے اس نے ایران کا مخالف ہونے کے باوجود اپنے بچے اسرائیل کو تھپکی دیکر خاموش رہنے کی تلقین کی ہے۔ ادھر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے اور
سفارتی تعلقات رکھنے والے اسلامی ممالک کو بھی اسرائیل کا بائیکاٹ اور سفارتی تعلقات کو ختم کرنا چاہئے تاکہ فلسطین کے شہدا کی روح تو خوش ہو۔ کشمیر کے حوالے سے اکثر پاکستان یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بھارتی ظلم و ستم کے وجہ سے دوست ممالک بھارت کا بائیکاٹ کریں مگر پاکستان کی بات پر کون دھیان دیگا، اسلئے نہیں کہ بھارتی مارکیٹ اور دنیا کے مفادات ہیں بلکہ اسلئے کوئی دھیان نہیں دیتا کہ پاکستان اور پاکستان کے تاجر خود بھارت سے تجارت کے نہ صرف خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ کربھی رہے ہیں۔ بحیثیت وزیر اعظم عمران ٹرمپ ملاقات کے بعد تو کشمیر کا معاملہ ایک قصہ کہانی بن گیا ہے اس ملاقات کے بعد ہی بھارت نے پیر پھیلائے اور آج وہ کشمیر پر کسی حد تک قابض ہوچکا ہے، بھارت اسکی شکل تبدیل کرنے کیلئے ہندو تاجروں کو آباد کررہا ہے 1500نئے تعلیمی ادارے تعلیم دینے کو نہیں بلکہ کشمیر کی تاریخ کو اپنے طور پر پڑھانے کا کام جاری ہے اور اب جبکہ بھارتی انتخابات قریب ہیں مودی سرکار کوئی نہ کوئی ایسی بے وقوفی کا کام کرتی ہے ہندو ووٹرز کا دل جیتنے کیلئے جو خود انکے اپنے گلے پڑ جاتا ہے، ابھی نندن کا کیس، پاکستان کے علاقے میں جعلی مقابلے کی تشہیر وغیرہ ایسی مثالیں ہیں جو بھارت کے اپنے گلے پڑ گئیں اب وہ پاکستان کے حوالے سے کوئی اسطرح کا اقدام نہیں کرسکے گا ہماری بہادر عسکری قوت کی وجہ سے اندرونی خلفشار تو وہ ہمیشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے پاکستان میں اب وہ کشمیر کے حوالے سے پھر علاقے میں افراتفری پھیلانا چاہتا ہے بھارت ایک خطرناک حد تک اپنی حدووں سے تجاوز کر رہا ہے کینیڈا ہو یا پاکستان اپنے مخالفین کو قتل کرا رہا ہے پھر وہ دہشت گرد نہیں نام نہاد تہذیب یافتہ ممالک کے سامنے۔ اب وہ کشمیری حریت پسند یاسین ملک جو غیر قانونی طور پر انکی قید میں ہے انہیں سزاے موت کا پروگرام بنا رہا ہے جو پھر کشمیر میں تحریک کو بھڑکا کرقتل عام کرنے کا موقع حاصل کرے گا، دنیا کو نظر نہیں آتا کہ کشمیری عوام کی بھارت سے نفرت اسقدر ہے کہ جب بھارت نے پاکستان سے ایک دن بعد عید منانے کا اعلان کیا تو کشمیر یوں نے عید بھی پاکستان کے ساتھ منائی۔ عالمی تنظیمیں چپ سادھے ہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کو سرگرمی سے کشمیر کے معاملے پرپھر سفارتی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے بجائے اسکے کہ وزیر خارجہ بھارت سے تجارت کی نوید دیں۔فلسطین اور ایران کے حالیہ معاملے پر دیکھا ہے کہ شائد فلسطینی چاہتے تھے اگر ایران اسرائیل کیخلاف قدم اٹھائے تو وہ غزہ میں ہونے والے ظلم کا ذکر کرکے اٹھائے نہ کہ اپنے سفارت خانے پر حملے کو یہ تاثر مجھے ملا جب ایک ایرانی صحافی افضل رضاء اور فلسطین کے صحافی جلال الفرا کا انٹرویو دیکھا، ایرانی صحافی کا کہنا تھا کہ ایران کے حالیہ راکٹوں سے اسرائیل کے ہوائی اڈوں کو نقصان پہنچا ہے وہ راکٹ بے عمل رہے یہ اسرائیل کا پروپیگنڈہ ہے جبکہ فلسطینی صحافی دبے الفاظ میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا، فلسطینی صحافی کے لہجے میں تلخی تھی۔ پاکستان میں بہت سے ادارے ایسے ہیں جب بھی کہیں مسئلہ پیدا ہوتا ہے مسلمانوں پر دنیا میں تو وہ فنڈز اکھٹا کرنے میں نکل پڑتے ہیں ”مصیبت زدہ“ مسلمانوں کی مدد کے نام پر اور افسوس یہ ہے کہ اس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اسکا ذکر خاص طور پر فلسطینی صحافی جلال الفرا نے اپنے انٹرویو میں کیا کہ فلسطین اور غزہ کے نام پر پاکستان میں حال میں کئی چندوں پر زندگی گزارنے والی تنظیموں نے اربوں روپیہ جمع کیاہے جلال افراء کا کہنا تھا غزہ جسکے نام سے پاکستان میں مختلف تنظیموں نے فنڈ اکٹھا کیا اس غزہ کی آبادی دس لاکھ بھی نہیں ہے جنہیں اسرائیل تباہ کر رہا ہے، وہاں کوئی نقد اقدام پہنچنے کا فی الحال کوئی ذریعہ بھی نہیں وہاں کے لئے اربوں روپیہ اکٹھا کیا گیا، ہمیں پاکستان کی حمائت پر فخر ہے مگر یہ ہمارے نام پر فنڈ اکھٹا کرنے والے ہمارے نام پر پیسہ جمع کرکے مزے کررہے ہیں۔ جلال الفراء کا یہ بیان واقعی ہمیں شرمندہ کرتا ہے ان لوگوں کی وجہ سے جو سڑکوں پر کیمپ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پاکستان کے معصوم عوام بڑے پیمانے پر اپنے مصیبت زدہ مسلمان بھائیوں کیلئے فنڈ دیتے ہیں مگر وہ فنڈ جاتا کہاں ہے؟؟؟ ہے کوئی پوچھنے والا، روکنے والا؟؟؟۔
تبصرے بند ہیں.