اپنا اصل میدان تو ادب ہی ہے کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ موجودہ دور کی اوزاں و بے معنی سیاست سے قطع نظر ایسا کالم لکھا جائے جو تسکین قلب اور شرح ادب کا باعث ہو۔
رنج پرانا ہی ہے مگر اظہار اپنی حدود وقیود سے باہر نکل کر نہایت بدنما ہوگیا ہے۔
قصیدہ گوئی آج بھی ہورہی ہے فرق صرف یہ کہ آج آٹھ سو کاسوٹ کہا جاتا ہے اور ممدوح کو ایسی مدح سے خوف نہیں آتا ……
برصغیر کی وسیع وعریض سلطنت زوال کے ڈھلتے سورج سے آخری ملاقات کررہی تھی وقت کے بڑے شاعر غالب اور ذوق چشم دید تھے تہہ درتہہ رنج کی گرہوں میں اترتے شاہی قافلے اور ان کی مدح میں قیمتی شاعر ضائع ہوتے ہوئے……
پندرہ برس کی نواب زینت جہاں سے بہادر شاہ ظفر کی شادی نتیجے میں سب سے چھوٹے شہزادے جواں بخت کا ولی عہدوں کی طویل فہرست میں آخری نمبرپر ہونا کتنوں ہی کی زہر خورانی کا باعث بنا سوالگ ……زینت محل کے مٹکاف سے مراسلات نگاری انعامات تحائف اور رشوتوں کا بھیجنا ایک ماں کا اپنے بیٹے کو ہندوستان کا آخری ولی عہد اعلان کروانا تھا جوکبھی بھی بادشاہ نہیں بنے گا۔ محض نام کا ولی عہد کہ فرنگیوں کے اعلان کے مطابق ظفر ثانی ہمشکل بہادر شاہ ظفر داغ دہلوی کے سوتیلے والد ہی آخری ولی عہد تھے پھر ان دیکھے زہر نے جہاں شاہ ثانی کو بستر بیمار پر لا ڈالا وہیں داغ اور والدہ وزیر بیگم کا ڈولا بھی محل سے باہر الٹا دیا گیا ……
نتیجتاً نواب خورشید محل کے صاحبزادے جواں بخت کی چڑھتی جوانی اور سہرہ بندی کا وہ معاملہ جس نے ادب کو دو لازوال سہروں ادبی چپقلش کی نزاکت اور ایک ایسی معذرت سے روشناس کیا جواب بھی ادب کا سرمایہ ہے۔
رنج کی سرایت نسل درنسل رہتی ہے مجھے کسی سے معذرت خواہانہ الفاظ کہنا پڑے تھے قصور کی عدم موجودگی میں وہ آج بھی میری سماعت میں ”رونے“ کی صورت موجود ہیں مجھے اپنی آواز نہیں پہچانی جارہی تھی ایسی بے گانی تھی میں خود سے نجانے کون مجھ میں بول رہا تھا۔
خیر مطالعہ میں غرق ہو کر کئی ذاتی غم بڑے بڑے غموں میں مدغم ہوکر محلول بن جاتے ہیں ……
آج بھی جواں بخت کی سہرابندی پر کہے گئے غالب کے آخری شعر اور اس کی پاداش میں معذرت پڑھتی ہوں تو اپنا رنج مدھم پڑ جاتا ہے۔
غالب کے سہرے کے آخری دواشعار درج ہیں آخری والا تو معذرت کا باعث بنا اس سے پہلے والا پسند بہت ہے ……
تارریشم کا نہیں ہے یہ رگ ابر بہار
لائے گا تاب گراں باری گوہر سہرا
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہدے کوئی سہرا
تیر کی طرح بہادر شاہ ظفر کے دل پر لگا گویا اس سہرے برابر کوئی سہرا نہیں کہہ سکتا اورجو ابراہیم ذوق کو استاد کیا گیا ہے تو بادشاہ میں سخن فہمی نہیں محض طر ف داری ہے۔ لہٰذا ابراہیم ذوق سے جواباً سہرا لکھوایا گیا جوکہ مجھے بھی بہت پسند ہے۔
اور غالب کے آخری شعر کا جواب ……
جس کو دعویٰ ہے سخن کا یہ سنادے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنورسہرا
مرزا کی سخن شناسی فوراً بھانپ گئی کہ بات بگڑ گئی فوری معذرت میں لکھا ……
منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
سو پشت ہے پیشہئ آباسپہ گری
علم وکمال وفضل سے نسبت نہیں مجھے
آزاد رہوں اور مرامسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ ومنصب وثروت نہیں مجھے
(اف اس خوشامد کو کہاں رکھیں گے؟ جو کمزوری کی انتہا پر ہے اور جو آج کے تمام سیاستدان اپنے لیڈر کی کررہے ہیں ایک خاتون سیاست دان نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ اپنے لیڈر کیلئے جھاڑو بھی لگا سکتی ہے۔)
غلامی اپنی جگہ مگر مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے کہ غالب نے بے جا کمزور ترین بادشاہ کی ایسی مدح سرائی کی ……
اگر وہ اس جوابی معذرت میں یہ شرارت نہ کرتے تو میرے بھی دل سے اتر جاتے ……
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ
سودانہیں جنوں نہیں وحشت نہیں مجھے
ذوق کے پلے رنگ کو چھیڑا احتیاط سے
مشکل پسندی نے جب بہت شور ڈالا تو کہا ……
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
نہ سہی گرمرے اشعار میں معنی نہ سہی
سوچتی ہوں اتنا بڑا بندہ کیسی کیسی بے جا توصیف بے بسی سفر کلکتہ پنشن کے آدھے پونے حصول، اولاد کی نارسائی، تنگ دستی اور تعیش پسند طبیعت کیسے گزارہ کرتی ہوگی، کیسا کیسا نہ دل ٹوٹتا ہو گا؟۔
آج لوگ خوشامد میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں دل نہیں ٹوٹتے کیونکہ بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا دل نہیں ہوتا تو ہزار طرح کے آلام بھی نہیں ہوتے ……
جہاں خدائے بزرگ وبرتر بے انتہا طاقت دیتا ہے حسن دیتا ہے ذہانت دیتا ہے فن دیتا ہے کمال فن دیتا ہے وہیں وہ دل شکستگی کا مستقل سامان بھی دیتا ہے۔
تخلیق کے کھیت میں آنسوؤں کا ”ترونکا“ لگتا رہے تو پھر ہی گداز پیدا ہوتا ہے نمی پیداوار کی مآخذ ہے اور اس کیلئے دلوں میں محبت ڈالی جاتی ہے خالص محبت جس کی حقیقی شناخت ہی آنسو ہیں۔۔۔۔۔۔
میر کی تائید دیکھئے۔۔۔۔۔۔
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریدناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اور کچھ تازہ ……
ایسی ادھوری ساتھ میں راحت ہے آجکل
جس کا یقیں نہیں وہ محبت ہے آجکل
آدھا یقین ساتھ میں آدھی ہے بے دلی
کٹتا نہیں یہ وقت مصیبت ہے آجکل
اس کی خبر کہاں سے ہو اپنا پتہ نہیں
ایسی اچاٹ اپنی طبیعت ہے آجکل
ملتی نہیں ہوں خود سے بھی ایسی ہے بے دلی
کترارہی ہوں جس سے وہ رغبت ہے آجکل
پہچان ہی میں آتی نہیں شکل یارکی
کیسی پر یدہ حسن کی رنگت ہے آجکل
تبصرے بند ہیں.