یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک بار پھر ایک دوسرے کے اُتنے ہی قریب آ رہے ہیں، جتنے اکثر دیکھے جاتے ہیں لیکن چونکہ گزشتہ چند سال میں ان تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کے بعد اب ایک بار پھر بہتری آ رہی ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کا ہر برے وقت میں ساتھ دیا ہے۔ ایسا میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ گزشتہ روز مکہ مکرمہ میں وزیراعظم شہبازشریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات ہوئی ہے، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم شہبازشریف اور وفد کے ارکان کا استقبال کیا، دونوں رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔ الصفا پیلس میں ہونے والی ملاقات میں ولی عہد بحرین بھی شریک ہوئے، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان نے وزیراعظم شہباز شریف کے اعزاز میں افطار ڈنر بھی دیا، افطار ڈنر میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وفد کے دیگر ارکان بھی شریک ہوئے۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں جو بھی سیاستدان انتخابات جیت کر وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہوا ہے، اس نے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا ہے۔ 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے اور وہ اگست 2013 میں ہی سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو گئے تھے۔ایسا ہی کچھ ان کے بعد 2018 کے عام انتخابات جیت کر وزیرِاعظم بننے والے بانی تحریک انصاف نے بھی کیا اور وہ بھی اسی برس ستمبر کے مہینے میں سعودی عرب چلے گئے۔اور اب 2024 کے عام انتخاب کے نتیجے میں ملک میں ایک اتحادی حکومت قائم ہوئی اور اس کے سربراہ وزیرِاعظم شہباز شریف ہیں۔جنہوں نے بھی سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا ہے۔ اْن کے ہمراہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر برائے اقتصادی امور احد چیمہ اور وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ بھی سعودی عرب میں موجود ہیں۔ پاکستانی وزیرِاعظم اپنے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ان کے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی درخواست پر آئندہ مہینوں کے دوران نئے پروگرام پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔شہباز شریف نے گذشتہ مہینے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد بدحال معیشت کو اپنی حکومت کے لیے ایک چیلنج قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی مالیاتی معاملات سے نمٹنے کے لیے گہری سرجری کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہماری قوم کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے‘۔ پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان گذشتہ برس جون میں تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے تھے جس کی 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط رواں مہینے پاکستان کو موصول ہوجائے گی۔پاکستانی حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ انھیں ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہوگا۔سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ یعنی نومبر 2021 میں پاکستان کے گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکائونٹ میں تین ارب ڈالر کی رقم ایک سال کے لیے جمع کرائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکائونٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی۔ اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ماضی میں پاک سعودی عرب کے تعلقا ت میں کہیں گرم جوشی دیکھنے کو نہ ملی ہو۔ آپ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں، دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے، سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ سے بڑے بھائی والا برتائو کیا ہے اور جب کبھی پاکستان کو ضرورت پڑی ہے سعودی عرب نے پاکستان کو مایوس نہیں کیا۔ سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ یک جان دو قالب والا معاملہ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان اور سعودی عرب دو ایسے ممالک ہیں جو نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور نظریے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ 23 ستمبر 1932ء کو سعودی عرب بھی احیائے اسلام کے نام پر وجود میں آیا تو پاکستان بھی کلمے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کو تسلیم کرنے میں بھی سعودی عرب نے دیر نہ لگائی۔ اسی طرح دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی بنیاد ہی ابتدا میں ہی قائم ہو گئی جو اب تک قائم و دائم ہے۔ لیکن کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان تعلقات کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ جب بھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک مثبت موڑ آتا ہے، ایسے عناصر منفی پہلوئوں کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر رپورٹنگ اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ ایسا کرنے والے بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی رسمی، عارضی، مصلحت کی دوستی نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام ایک دسرے سے روحانی تعلق کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاکستانیوں کے وجود کا مرکز و محور مکہ ہے تو مدینہ میں ہماری زندگی ہے۔ ہم اپنی روح اور زندگی کے بغیر ادھورے ہیں۔ اس لئے یہ رشتہ دونوں ممالک کے درمیان تاازل قائم و دائم رہے گا۔ ماضی قریب میں کچھ عاقبت نا اندیشوں نے ان تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن دونوں جانب کی عوام اور حکمران جانتے ہیں کہ یہ دراڑیں ڈالنے والے کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ دونوں کے درمیان تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پروان چڑھیں گے، کیوں کہ ان تعلقات کو پروان چڑھانے اور ان کو مضبوط بنانے میں ہماری مسلح افواج بھی سول قیادت کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔لہٰذا امید ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان سعودی عرب کے درمیان ایک گہرا رشتہ قائم ہو گا، جس سے پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے میں خاصی مدد ملے گی۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ان مضبوط تعلقات کی بنا پر دشمن قوتوں کو واضح پیغام جائے گا کہ پاکستان ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا۔
تبصرے بند ہیں.