حضرتِ انسان کی تخلیق اللہ رب العزت کے بے شمار معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے، آدم عربی زبان میں انسان کو کہتے ہیں اور عبرانی میں ’ا‘ کے اضافے کے ساتھ اس کے معنی مٹی کے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو مٹھی بھر مٹی سے بنایاجو مختلف زمینوں سے لی گئی تھی۔ تخلیقِ آدم ؑ سے بہت پہلے اللہ رب العزت نے فرشتوں اور جنات کو تخلیق فرمایا اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ ’میں زمین پر اپنا ایک فرمانروا بنانے والا ہوں‘ تو انہوں نے کہا ’کیا تو وہاں اسے بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری تعریف میں لگے ہیں اور تیری پاکی کو عیاں کرتے ہیں‘ اس نے کہا ’میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘۔اور اس نے آدم ؑ کو سب (چیزوں کے) نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا ’مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو‘ وہ کہہ اٹھے ’تو پاک ہے! ہمیں کوئی علم نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں دیا ہے۔ تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے‘۔ اس نے کہا ’اے آدم! انہیں ان کے نام بتا‘ پھر جب اس نے انہیں ان کے نام بتا دیئے تو اللہ تعالیٰ نے کہا ’کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی باتیں جانتا ہوں: اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے تھے (بقرہ۳۳)۔ اسی لیے شاید کسی دانا نے کہا ہے۔
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تمام اشیاء کو ایک نظم کے ساتھ ترتیب دیا اور اس میں نظم کو نہایت عمدگی اور خوبی کے ساتھ مضبوط و مستحکم کیا۔ربِ دو جہاں نے فرشتوں کو پیدا فرمایا اور انہیں متعدد کام اور ذمہ داریاں سونپیں جنہیں وہ سرانجام دیتے ہیں۔ فرشتوں میں سے ایک قسم ان فرشتوں کی ہے جن کے ذمے انسان کے اعمال(نیک و بد)کو اپنے پاس موجود صحیفوں میں ہاتھوں سے لکھ کر محفوظ کرنے کا کام ہے۔پیدا ہوتے ہی ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے متعین کر دیے جاتے ہیں جو موت تک اس بندے کی نیکیاں اور گناہ لکھتے اور شمار کرتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ان فرشتوں کی صفت بیان کی گئی ہے کہ یہ فرشتے ’کراماً کاتبین‘ ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بڑے معزز فرشتے ہیں، اور انسانوں کے اعمال لکھ کر محفوظ کرنے والے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: حالانکہ تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں (جو) بہت معزز ہیں، (تمہارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیں ۰ وہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔حضرت ابن جریج رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: کراماً کاتبین دو فرشتے ہیں جو ان میں سے ایک اس (انسان) کے دائیں جانب ہوتا ہے جو نیکیاں تحریر کرتا ہے، اور دوسرا اس کی بائیں جانب ہوتا ہے جو برائیاں تحریر کرتا ہے۔دائیں جانب والا فرشتہ اپنے ساتھی فرشتے کی گواہی کے بغیر نیکیاں لکھ دیتا ہے جبکہ بائیں جانب والا فرشتہ اپنے ساتھی (فرشتے) کی گواہی کے بغیر کوئی برائی نہیں لکھتا۔ یعنی ہر انسان کے ذاتی افعال کو ضابطہ تحریر میں لانے کے لیے ربِ کائنات نے دو فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے جو انسان کے ہر اچھے برے عمل کو قلم بند کرتے ہیں چاہے وہ قولی ہوں، عملی ہوں، ان کا تعلق عقائد سے ہو، چاہے وہ محض ایک خیال ہوں یا پھر پختہ ارادہ اور پھر اس ارادے کی تکمیل ہوں۔ چنانچہ یہ فرشتے بندوں کے قول و فعل میں سے کسی بھی حال میں کچھ بھی نہیں چھوڑتے۔ ربِ دو جہاں نے بندوں کے ظاہری اعمال اور زبان سے متعلقہ اقوال کے ساتھ ساتھ انہیں بندوں کے دل کے احوال تک جاننے پر قدرت اور صلاحیت عطا فرمائی ہے۔بقول شاعر
کسی کے نام و رتبہ اور نہ خدو خال سے مطلب
کراماً کاتبین کو خلق کے اعمال سے مطلب
ایمان با لکتاب اور ایمان با لرسل کا ایک غیر منکف جزو ایمان بالملائکہ ہے، ملائکہ کو مانے بغیر خدا اور اس کے نبیوں کے درمیان کا واسطہ غیر واضح اور غیر متعین رہ جاتا ہے، جس کے غیر واضح رہنے سے نا صرف سلسلہ علم و ہدایت کی ایک نہایت اہم کڑی گم شدہ رہ جاتی ہے، بلکہ آسمانی ہدایت کے باب میں عقلِ انسانی کو گمراہی کے بہت سارے راستے بھی مل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ملائکہ پر ایمان کو’اجزائے ایمان‘میں سے قرار دیا، یعنی ایک شخص کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ، کتب، رسل، اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ملائکہ کے وجود پر بھی ایمان لائے۔ملائکہ ان مخلوقات سے ہیں جو محسوسات سے بالاتر اور بلند و بالا مقام کے حامل ہیں۔یہ ربِ کائنات اور اس کے نبیوں اور رسولوں کے درمیان رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور اس اعتبار سے یہی ایک مخلوق ہے جو عالمِ لاہوت اور عالمِ ناسوت، دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں۔ اپنی نورانیت کی وجہ سے خدا کے انوار و تجلیات کے بھی متحمل ہو سکتے ہیں اور اپنی مخلوقیت کے پہلو سے انسانوں سے بھی اتصال پیدا کر سکتے ہیں۔ ان کے سوا کوئی اور مخلوق خدا تک رسائی کا یہ درجہ اور مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ خدا اور اس کے رسولوں کے ساتھ ساتھ ان رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے جو ربِ کائنات اور اس کے رسولوں کے درمیان رسالت کا واسطہ ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ: ’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، اسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس (فرشتے) ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وہ دن رات (اس اللہ کی) تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے‘۔ اپنے بندوں میں سے وہ جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے کہ لوگوں کو خبردار کرو کہ میرے سوا کوئی اللہ نہیں، اس لیے تم مجھ ہی سے ڈرو۔جو اعمال نامے کراماً کاتبین تیار کرتے ہبں وہ تو انسان کو قیامت کے روز ملیں گے، البتہ بعض فرشتے ایسے بھی ہیں جو انسان کے اعمال کا حساب صبح وشام اللہ تعالیٰ کے پاس پیش کرتے ہیں۔ فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ لوگوں کے اعمال ہر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اس کام کیلئے ہر انسان کے ساتھ فرشتے مقرر ہیں رات والے فرشتے صبح کی نماز تک انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر وہ اپنا صحیفہ دن والے فرشتوں کو دے کر چلے جاتے ہیں اور انسان کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ الہٰی میں پیش کرتے ہیں۔دن کے فرشتے عصر کی نماز کے وقت صحیفہ رات کے فرشتوں کو دے کر دن کے اعمال لے جاتے ہیں۔دنیا کے ہر مذہب میں کسی نا کسی شکل میں فرشتوں کا تصور موجود ہے۔ صرف لا دین لوگ ہی ان کے وجود کے منکر ہیں۔
تبصرے بند ہیں.