ماہِ مبارک اللہ کی رحمت، مغفرت کے خزانے طلب گاروں پر لٹاتا آخری عشرے میں داخل ہوگیا۔ شیاطین بندھے رہے۔ (صرف زمینی، طینی شیاطین عالمِ تنہائی میں مارے مارے کارگزاریاں دکھاتے پھر رہے ہیں۔) یہ رمضان بے مثل رہا۔ شہادتوں کے خون سے اقصیٰ کے چراغ روشن رکھنے والوں کے عزم وثبات سے دنیا بھر میں اندھیرے دور کرنے کا سامان رہا ۔ جان پر کھیل کر مسجد اقصیٰ کو آباد رکھنے والے فلسطینیوں کو اللہ سلامت اور قوی رکھے۔ (آمین) نزولِ قرآن کا مہینہ۔ دنیا بھر تک اللہ کا عطا کردہ حیات بخش نظامِ زندگی متعارف کروانے کا مہینہ۔ تمام استحصالی، مبنی برظلم نظام ہائے زندگی مٹاکر خالق ومخلوق مابین حائل پردے ہٹانے کے لیے امتِ امامتِ انسانیت کی تربیت کا مہینہ۔امت سو چکی تھی۔ کھوئی گئی تھی دنیا کے میلے میں۔ وھن (حبِ دنیا، کراہیۃ الموت) کی مریض بنی۔ جو روح کو اندھا کر دینے، تاریکی سے بھر دینے والا مرض ہے۔ کتنا اندھا؟ ایک مثال کافی ہے۔ سعودی عرب سے عالمی مقابلۂ حسن میں شرکت کے لیے نکلنے کو تیار کم لباس عورت ہاتھ میں سبز کلمے والا جھنڈا اٹھائے فخریہ رمضان میں موجود ہے! سوال یہی اٹھتا ہے: ’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور آج ان میں اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟‘ (الحدید۔ 16)بنی اسرائیل (یہودی)، انبیاء کے قتل اور کتاب اللہ تورات اور اس کے احکام میں تحریف کے بدترین مجرم ہیں۔ دوسری طرف امتِ مسلمہ ہے۔ قرآن سے منہ موڑے، موت کو بھلاکر حقیر دنیاوی مفادات کی اسیر بن کر قساوتِ قلبی کا شکار ہو چکی۔ جسم اور روح کے درمیان کھڑکی ہمارا قلب ہے۔ رمضان ہی یہ نادر گھڑیاں فراہم کرتا ہے جب رجوع کرنے والوں کے لیے قرآن کا نور آنکھوں اور کانوں کے راستے اندر کے اندھیرے دور کرنے روح میں اترتا ہے۔ آلودگیاں دھلتی ہے۔ پیشانی سجدہ ریز ہوتی ہے تو شخصیت کا مرکز، دماغ کا پسِ پیشانی حصہ (Frontal Lobe) رب تعالیٰ سے روشنی پاتا ہے۔ فیصلہ سازی اور جذباتی رؤیوں کے مرکز کی جلاء دن میں پانچ مرتبہ اور قیام اللیل سے مہینہ بھرہوتی ہے۔ حیوانی جسم میں موجود وجودِاصلی، ’روح‘ سال بھر کے لیے خالق سے وابستگی اور مطلوبہ پاکیزگی حاصل کرتی ہے۔ تعلیم، گلوبل تہذیب، ذرائع ابلاغ، حکومتی اہتمامات سے ہمارے ہاں ہمارے اعصاب پر مغربی وائرس کا وہ حملہ ہوا جو مسلمان کو اس کی اصلیت، شخصیت، شناخت بھلا دیتا ہے۔
تناظر میں ایک سیرت وکردار غزہ، مسجدِ اقصیٰ کے نواح میں دی جاتی جانی مالی قربانیوں، شدائد کا پامردی سے مقابلہ کرتا نگاہ خیرہ کن ایمان اور رمضان کا ہے۔ دوسری طرف رمضان ہمارے ہاں پی ایس ایل کرکٹ کے پروانے بن کر گزارا گیا۔ اب نیتن یاہو کے ہاں سے آتی ظہورِ دجال کی تیاریوں میں نیٹ پر امڈنے والے رطب ویابس کا چرچا کرنے والے مسلمانانِ نسلِ نو! سوشل میڈیا اب نئے بخار کی زد میں ہے۔ لال بچھڑا قربان کرنے، (نعوذباللہ) مسجد اقصیٰ گراکر تھرڈٹیمپل بنانے اور دجال کی آمد ہونے چلی ہے۔ ساتھ ہی
ہمیں سیدنا مہدی کے ظہور کی خبر دی جا رہی ہے۔ اسے فلمی، ڈرامائی سنسنی خیزی کے ساتھ پھیلا رہے اور بحث مباحثے چھیڑ رہے ہیں… بغیر علم ولاھدی ولاکتٰب منیر بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔‘ (الحج۔ 8,9) یہودی تو اس فن میں طاق رہے ہیں۔ اب وہ سوشل میڈیا کے ذریعے کم علم، کج راہ مسلمانوں کو اس کام پر لگا رہے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایسی راہ پر چھوڑ کر گئے ہیں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ ’باب اشراط الساعۃ‘ رہنما ہے۔احادیث میں اس دور کی علامات کی نشاندہی آپؐ نے فرما دی ہے۔ علمائے کرام موجود ہیں۔ یہودی ربیوں، پیشواؤں کے فراڈ اور دھوکے کا اتباع چھوڑ کر کتاب اللہ اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اصل ماخذ ہیں۔ آپؐ کی تنبیہ بہت سخت ہے: ’خبردار رہو! عنقریب ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے۔‘ میں نے (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) عرض کیا: یا رسول اللہ، اس سے بچنے کی صورت کیا ہوگی؟‘ آپؐ نے فرمایا: کتاب اللہ، اس میں اس چیز کی خبر بھی ہے کہ تم سے پہلے کی قوموں پر کیا گزری اور اس بات کی خبر بھی ہے کہ تمہارے بعد میں آنے والوں پر کیا گزرے گی، اور اس چیز کا ذکر بھی ہے کہ تمہارے معاملات کے درمیان فیصلہ کرنے کی صورت کیا ہے۔ یہ قرآن ایک سنجیدہ اور فیصلہ کن کلام ہے، کوئی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جو کوئی ظالم وجبّار شخص اس قرآن کو چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کو کچل کر رکھ دے گا اور جس نے اسے چھوڑکر کسی اور جگہ سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کی اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔‘ (ترمذی، دارمی) کتابِ مبین، صحیح احادیث، سورۃ الکہف اور ’معرکۂ ایمان ومادیت‘ جیسی مستند کتب (ابوالحسن علی ندویؒ)، علمائے حق کے ہوتے ہوئے اسرائیلی قصابوں سے سیدنا مہدی اور ظہورِ عیسیٰ علیہ السلام یا کانے دجال بارے پوچھا جائے گا؟ جب ہمارے ہاں یہ بحث چھیڑی پھیلائی جا رہی ہے، مغرب میں کیا ہو رہا ہے؟ ہماری یہ برگر کلاس، منہ ٹیڑھے کرکے انگریزی لب ولہجے اپناتی، ان کے طرز زندگی نظام تعلیم پر مرتی مٹتی ہے۔ یہ ذرا ادھر تو دیکھے۔ وہاں فضا کیا ہے؟
یہ نیویارک ہے۔ جسے یہود کا گڑھ ہونے کی بنا پر ’جیویارک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں 31مارچ کو 30ہزار امریکیوں کے شدید جذباتی، فلسطین میں جنگ بندی کے لیے نعرہ زن مظاہرے کا سماں ہے۔ نہ لال بچھڑے نہ تھرڈ ٹیمپل جیسی کوئی تیاری! ایک ہی غم حاوی ہے۔ قتل عام روکو! یہ لندن بھی دیکھ لیجیے یہاں دو مظاہرے جاری ہیں۔ ایک لامنتہا فلسطینی جھنڈوں اور انہی کے لیے بینر، نعروں بھرا مظاہرہ۔ دوسری طرف اسرائیل کے حق میں 50یہودیوں پر مشتمل اسرائیلی جھنڈے اٹھائے، یرغمالیوں کی رہائی کے لیے احتجاج! دنیا بدل چکی ہے! ہمارے نوجوان لال بچھڑے کی دم پکڑے دجال پر بحث کر رہے ہیں! ڈنمارک میں عوام نے کوپن ہیگن کا گھیراؤ/ بلاک کر رکھا ہے، فلسطین کا حق طلب کرتے! نیتن یاہو اپنی ناکامیوں پر گھبرایا پڑا ہے اور مذہبی ’ٹچ‘ دینے کو یہ ہوائی (بچھڑے والی) اس نے چھوڑی ہے۔ پہلے راقمہ اسی نوعیت کی ایک پیشن گوئی کا تذکرہ (’غم کا عارضی منظر‘: کالم 28فروری، اسلام) کرچکی۔ جس کی رو سے نیتن یاہو کے ہاتھوں عصائے سلطانی دجال کو دیے جانے کی کہانی پھیلائی گئی تھی۔ یہ درفنطنی بھی نیتن یاہو کی مالیخولیائی کیفیت (hallucinations)کا تسلسل ہے۔ ہم، کلام اللہ اور نبی اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث امتی، ان احمقوں سے پوچھیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ (28مارچ، دی ویک) نام کے اخفاء کے ساتھ اسرائیلی اعلیٰ اہلکار اقراری ہیں کہ: ’اسرائیلی اہداف حاصل کرنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ حماس کو تباہ کرنا دیوانے کی بڑ والی بات ہے۔ مہینہ پہلے تک بھی امریکی اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔‘ دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کہتی ہے۔ ’یاہو رفح پر زمینی حملے پر بضد ہے مگر بائیڈن مخالفت کر رہا ہے۔‘ لال بچھڑے کا اہتمام اور کہانی پھیلا کر دھیان بٹایا جا رہا ہے۔ ایمان کی فکر کیجیے۔ ابھی مہلت ہے۔ رمضان کا دامنِ نجات تھامنے کی ضرورت ہے۔ ظہورِ دجال کے بعد ایمان لانا ممکن نہ رہے گا۔ پناہ بخدا!
رمضان کی دعاؤں میں بڑا حق ان تمام باضمیر مغربیوں ودیگر دنیائے کفر کا ہے جو فلسطین کے غم میں رات دن ایک کیے رہے۔ اللہ ان سلیم الفطرت انصاف پسندوں کو نور ایمان سے منور کر دے۔ (آمین) ہمیں اس وقت اہلِ ایمان میں شامل رکھے جب چھانٹ کر منافق الگ کردیے جائیں۔ (آمین) الشفاء ہسپتال میں ناقابلِ بیان درندگی اسرائیلی خون آشام وحوش نے برپا کی ہے۔ اس سے امریکا، مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ تمام مسلم حکومتیں صرف تماشائی ہیں!
جاگ سکتے ہو تو جاگ اٹھو نفیریں گونجیں
ورنہ تا حشر یونہی سوئے رہو سوئے رہو
Next Post
تبصرے بند ہیں.