حماد غزنوی ایک صاحب طرز کالم نگار ہیں۔ انہوں نے ایمانداری کی شرط کے ساتھ سوال کیا ہے ’’آپ کو کیا لگ رہا ہے پاکستان میں جمہوریت آرہی ہے یا جارہی ہے ‘‘۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بغور جائزہ کے بغیر ہی نظر آ جائے گا کہ پاکستان میں جمہوریت کا آنا جانا لگا رہتا ہے اول روز سے جو ’’مضبوط کندھے‘‘ جمہوریت کو لے کر آتے ہیں وہ اسے لاوارث نہیں چھوڑتے ان کی مسلسل نگرانی کے باوجود ’’سیاسی شرارتی عناصر‘‘ دوتین سال میں اس کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں تب مجبورہوکر ’’دفاع جمہوریت‘‘ کے ذمہ دارمحافظ ان عناصر کے چنگل سے نکال کر اسے محفوظ ٹھکانے پر پہنچا دیتے ہیں دس دس سال بگڑے حلیہ کا بناؤ سنگھار کرتے ہیں پھر مضبوط کندھوں پر لاکر دوبارہ سیاسی دھماچوکڑی میں چھوڑتے ہیں البتہ اس سیاسی دھماچوکڑی میں پانچ پانچ سال گزارنے کی تاریخ بھی ہے لیکن یہ صرف اس صورت میں جب نگران ’’سیاسی شرارتی عناصر‘‘ پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں چنانچہ پیارے حماد بھائی پاکستان میں جمہوریت آرہی ہے یا جارہی ہے کا ایماندارانہ جواب یہ ہے کہ پاکستان میںجمہوریت کا آنا، جانا لگارہے گا۔ اس کا پیارے پاکستان میں مستقل قیام صرف اس صورت ممکن ہے جب لانے لے جانے والے اسے اپنے کندھوں کا غیر ضروری بوجھ سمجھنے لگیں اور ’’سیاسی شرارتی عناصر‘‘ اس کے آنے پر دھماچوکڑی کا ماحول بنانے سے باز آجائیں اور اگر معاملہ وہ اپنی خو بدلیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں، کا رہے گا توپیارے بھائی ’’قیادت اک تغیرکو زمانے میں‘‘ دوسرے زمانے میں، کی جگہ ’’پاکستان میں‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
جمہوریت کا ’’ ہیضہ ‘‘ رکھنے والے ایک توسن دانشوادراک کے شہ سوار سخت سیخ پاہیں کہ جنرل عاصم منیر اپنی عسکری ذمہ داریوں کی حدود میں رہنے کی بجائے ملکی معیشت کو زبوں حالی کے چنگل سے نکالنے کیلئے کوششوں میں کیوں حصہ دار رہے ۔ اصولی طورپر تو بات ٹھیک ہے جس کا جو کام ہے وہ کرے مگر خارجی معاملات کے ساتھ معیشت بھی ایسا شعبہ ہے فوج جس سے لاتعلق نہیں رہ سکتی کیونکہ اگر ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے تو جدیدترین ہتھیاروں کے ڈھیر حتیٰ کہ درجنوں ایٹم بم بھی ریاست کا دفاع نہیں کرسکتے سوویت یونین دوسری بڑی عالمی طاقت تھی مدمقابل امریکہ کی اس کے خلاف کارروائیاں محض سازشوں اور ریشہ دوانیوں تک محدود تھیں حتیٰ کہ اس کی طفلی میں سوویت یونین کا ’’بغل بچہ‘‘ کیوبا اسے مسلسل آنکھیں دکھاتا رہا اور جواب میں لائے جانے والے ڈالروں سے عمران حکومت کا منہ بھر دیا ۔ ’’ویسے منہ میں ڈالی جانے والی کوئی بھی چیز معدہ کے سوا کہیں اور جا ہی نہیں سکتی یہ قدرتی عمل ہے ۔‘‘جبکہ جنرل عاصم منیر نے ایک ڈالر بھی لاکر نہیں دیا۔ تاجروں، صنعت کاروں سے ملاقاتوں کے ذریعہ خود کو استحکام معیشت کی حکومتی کوششوں میںہلا شیری دینے تک محدود رکھا ہوا ہے۔
ویسے جنرل شجاع پاشا ، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل فیض حمید، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ سوچتے توہوں گے کس ’’ستم گر‘‘ سے یاری لگائی، سارے احسانات ایک طرف رکھ کر ججز خط میں ایجنسیوں کی مداخلت کے الزام کے حوالے سے بیان داغ دیا، انکواری شوکت صدیقی سے شروع یا پہلے سے کرلیں (یعنی ایجنسی کے پہلے سربراہ ہوں سے) مجھے اعتراض نہیں لیکن کریں ضرور ،جنرل فیض حمید ہو یا کوئی اور تحقیقات ہونی چاہئے ‘‘ ویسے جنرل فیض حمید ضرورسوچتے ہوں گے ’’بے دردی‘‘ میری دوسال کی محنت کی بھی حیاء نہیں کی۔‘‘
یہ ان کیسوں میں ایک ہے جو ساری دنیا کیلئے دلچسپی کا باعث ہے اب ہرکوئی منتظر ہے کہ یہ جج ایجنسیوں کی مداخلت کے حوالے سے کیا ثبوت وشواہد پیش کرتے ہیں۔ ویسے عجیب سے خیال نے ذہن میں کلبلاہٹ کی اگر ان ججوں سے کہہ دیا کہ ’’ہم نے یہ کب لکھاہے مداخلت ہوئی ہے بلکہ ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ اگر مداخلت ہو تو کیا کرنا چاہئے رہنمائی کی جائے، اس فضول سے خیال کو جھٹک کر ذہن سے نکال دیا ہے ویسے چیف جسٹس نے جو رہنمائی کی ہے کہ مداخلت کرنے والے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا یہ جج پورااختیار رکھتے ہیں مگر یہ رہنمائی فرماتے وقت قاضی صاحب نے شایداس اعتراف پرغور نہیں فرمایاکہ یہ چھ آپ یا جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کی طرح بہادر نہیں ہیں ۔
یہ پی ٹی آئی والے نہ جانے ان کی کس ’’بہادری‘‘ کے نغمے گارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر عون عباس کے بقول ’’چھ ججوں نے خط لکھ کر بہادری کا ثبوت دیا ہے ۔‘‘ جمہوریت کا جہاں تک تعلق ہے علامہ اقبال نے تو اسے ایسا ’’دیواستبدادقرار دیا ہے جس نے جمہوری لبادہ اوڑھا ہوا ہے لکھا ہے یہ پاکستان کے حوالے سے قیام پاکستان سے قبل مستقبل کی تصویر ہے کیونکہ پیارے پاکستان میں جمہوریت ’’دیواستبداد‘‘ کے قبضہ میں ہی رہی ہے ۔ تاہم اسے استبدادی پنجے سے چھڑانے کی کوشش ہوئیں مگر ہر کوشش کے نتیجے میں ’’شہزادہ گلفام ‘‘ ہی جان سے گیا ہے۔ اور ’’نیلم پری ‘‘ فریب نظر ہی رہی ہے بعض اشتہاری ماہرین توجہ کھینچنے کیلئے الٹا سیدھا جملہ تخلیق کردیتے ہیں جیسا کہ امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ’’ہم کوئی ’’غلام ہیں‘‘ بہت مقبول ہوا ہے پاک سرزمین کا نظام، قوت اخوت عوام، کوہی فضا سے زمین پر اترنا نصیب نہیں ہوا،
جناب والا، گرفت خیال یہ مجال کب ہے کم فہم کی لایعنی باتوں سے طبع کا مکدر ہونا فطری ہے اس لیے ڈھیر ساری معذرت۔
تبصرے بند ہیں.