تہلکہ خیز خط، رہائی کا اعلان، امریکی کال

120

شہر اقتدار سے تہلکہ خیز خبریں، ایک ہی دن میں چار خطرناک حملے، دو دہشتگروں نے کیے دو اپنوں نے، اشارہ اپنے خان اور بشریٰ بی بی کی دھمکیوں کی طرف۔ جمہوری سسٹم کو لپیٹنے کی منظم سازش کا آغاز، ایک ملاقات اور پھر سب کچھ الٹ گیا۔ کھیل ختم پیسہ ہضم، صرف ٹی وی چینلز پر شور، سوشل میڈیا پر سینہ کوبی، حالات کا ماتم، سیاسی شعبدہ باز سرگرم، رنگ باز متحرک، چکر باز فعال، چہرے پر سچ کی چادر تان کر جھوٹ بولنے والے علی محمد خان نے دعویٰ کر دیا کہ خان 25 رمضان المبارک تک جیل سے رہا ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی والوں نے مٹھائی کے ٹوکروں کا آرڈر دے دیا۔ خان کو اس دعوے کا علم نہیں، انہیں ایک کال کا انتظار ہے۔ یہ کال نومبر میں ٹرمپ کی طرف سے آئے گی جس کے بعد جیل کے دروازے کھل جائیں گے۔ خواب دیکھنے دکھانے پر کوئی پابندی نہیں، یہ امید مشاہد حسین سید نے دلائی ہے وہ آج کل اسی قسم کی باتیں کر رہے ہیں (شیخ رشید کی اسامی اب تک خالی پڑی ہے) حضرت علامہ نے کہا تھا ’’بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نوامیدی، مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے‘‘ عدالتی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل، ایک خط سے سسٹم کی بنیادیں لزر گئیں، چولیں ہل گئیں، 6 ججوں کے خط نے نیا پنڈورا بکس کھول دیا۔ کون سچا کون جھوٹا تنازع شدت اختیار کر گیا۔ خفیہ اداروں پر مداخلت کا الزام لگانا آسان، ثبوت کی فراہمی مشکل، الزامات ثابت ہوئے تو انجام معلوم پیش بندی کر لی گئی۔ سابق جسٹس مظاہر نقوی کے برطرفی کیس سے شہرت پانے والے وکیل میاں دائود نے ججوں کے کنڈکٹ پر پٹیشن دائر کر دی، انہیں پینلٹی سٹروک لگانے کا موقع مل گیا۔ تحقیقات تو ہو گی ہونی بھی چاہیے نزلہ کس پر گرے گا۔ اندازہ تحقیقات کے بعد ہو گا۔ ایک خط نے کئی سوال اٹھا دیے۔ مبینہ مداخلت کب ہوئی؟ لمحہ موجود میں کوئی شکایت نہیں۔ ’’یہ قصہ ہے تب کا جب آتش فشاں تھا‘‘ مداخلت آج یا کل کی بات نہیں ماضی قریب و بعید کی داستان امیر حمزہ ہے۔ جس کے کئی والیوم ہیں پرت کھولتے جائیں پیاز کے چھلکوں کے سوا کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جائے گی۔ جج صاحبان قابل احترام، بے انتہا اختیارات کے مالک، وزرائے اعظم کو طلب کرتے رہے، کسی بھی مداخلت کار کو توہین عدالت کا نوٹس دے کر بلا سکتے تھے۔ مبینہ مداخلت 2008ء، 2018ء، 2023ء میں بیان کی گئی۔ اظہار 2024ء میں کیوں؟ یعنی بقول سینیٹر عرفان صدیقی ضمیر ایک سال بعد کیوں جاگا۔ خط منظر عام پر نہ لایا جاتا تو بہتر تھا۔ لوگوں کی زبانیں کھل گئیں۔ ایک زبان دراز نے پوچھا مبینہ مداخلت کاروں کی طلبی کیوں نہ کی گئی۔ اسی ہائیکورٹ کے فاضل جج شوکت عزیز صدیقی نے تو مداخلت کے واقعات کھل کر بیان کر دیے جس پر انہیں عدلیہ سے نکال دیا گیا۔ بقول ان کے ایک فاضل جج نے دیگر ججوں کو ان کی بیٹی کی شادی میں شرکت سے منع کر دیا تھا۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے ان کی برطرفی کو خلاف آئین و قانون قرار دے کر سرخرو کیا۔ مدت ملازمت پوری ہونے کے باعث چیف جسٹس تو نہ بن سکے پنشن اور مراعات بحال ہو گئیں، خط میں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو جیل میں رکھنے کی ہدایت کا ذکر نہیں، بعد کے دنوں کی مبینہ مداخلت کا ذکر کیا گیا۔ کیا فاضل ججوں نے مداخلت پر عمل کیا؟ تحقیقات کے دوران سوالات ہوں گے۔ خط منظر عام پر آتے ہی فاضل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ اجلاس بلا لیا۔ دو روزہ اجلاس میں خط پر غور کیا گیا۔ اس ضمن میں وزیر اعظم سے بھی مشاورت کی گئی۔ وزیر اعظم نے ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ مگر خط میں تو کنونشن بلانے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ خط کی آڑ میں پی ٹی آئی کے تمام چھوٹے بے چیخ اٹھے کہ مداخلت ہو رہی ہے ججوں کے احتجاج کے بعد بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے، تحقیقات ہوئی تو سوالات ہو سکتے ہیں کہ مداخلت کے باوجود خان کی مراعات میں کمی کہاں ہوئی، ضمانتوں کے ڈھیر، گڈ ٹوسی یو کہہ کر محبتوں کا مظاہرہ، فائیو سٹار جیل 35 لاکھ کا کھانا، 9 سو سے زائد افراد کی ملاقاتیں، چار مقدمات میں سزائوں کے باوجود میڈیا سے کھلم کھلا بات چیت وکلا اور ملاقاتیوں کو ہدایات، ٹکٹوں کے فیصلے، کیا سب قیدیوں کو یہی سہولتیں میسر ہوتی ہیں، فاضل ججوں نے پہلی بار خط نہیں لکھا پہلا خط 10 مئی 2023ء کو لکھا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال تھے نو رسپانس اس دوران ضمانتوں کا سلسلہ جاری رہا، دوسرا خط 12 جنوری 2024ء کو تحریر کیا گیا۔ اس میں پہلے خط کا حوالہ نہیں تھا جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا مسئلہ حل ہو گیا پھر اچانک 25 مارچ 2024ء کو خط لکھنے کی ضرورت محسوس کیوں ہوئی، خط کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی بچی کھچی قیادت کی جانب سے جلسوں جلوسوں ریلیوں کے اعلانات شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں کہ کہیں اس خط کو بنیاد بنا کر وکلا تحریک تو شروع نہیں کی جا رہی کڑیاں مل رہی ہیں 6 ماہ قبل پی ٹی آئی کی جانب سے وکلا تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ درجن بھر سے زیادہ وکلا زمان پارک کے باہر جمع نہ ہو سکے، عوام کو چار کالیں دی گئیں، سب ناکام، خط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’عشاق‘‘ مرغ بسمل کی طرح تڑپ کر باہر نکلے اور بیک وقت ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چھا گئے ایک نکاتی ایجنڈا خان کی رہائی، عید بعد ہلا گلا کرنے کی تیاریاں اعلانات تاکہ سینوں کے داغوں سے جلنے والے دل کے پھپھولے دکھائے جا سکیں معصومانہ خواہش یا شاطرانہ چال، آر یا پار، پی ٹی آئی کی وکلا اور سیاسی قیادت 25 اپریل سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ جب مولانا فضل الرحمان جتھے لے کر نکلیں گے جس کے بعد بقول ان کے کمزور بنیادوں پر کھڑی حکومت خود بخود گر جائے گی۔ لیکن اس سے پی ٹی آئی کو کیا فائدہ ہو گا؟ کیا پی ٹی آئی حضرت مولانا کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنا لے گی؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مولانا اب تک ’’یہودی بیانیے‘‘ پر قائم ہیں۔ اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسد قیصر نے مستقبل کے تین آپشنز کا اعلان کیا۔ پارلیمنٹ میںفل ہنگامہ آرائی عدالتوں سے رجوع اور مراعات حاصل کرنے حتیٰ کہ رہائی کے فیصلوں کی کوششیں اور عید بعد سڑکوں پر ریلیاں، روپوش لیڈر مراد سعید نے کنج عافیت سے منہ نکال کر کہا ہمیں عوام نے مفاہمت کے لیے نہیں مزاحمت کے لیے ووٹ دیے ہیں کسی نے کسی سے پوچھا مراد سعید اور چار سال تک سٹے آرڈر کے سہارے ڈپٹی سپیکر بنے رہنے والے قاسم سوری کہاں ہیں، دل جلے نے کہا خبروں کے مطابق ٹی ٹی پی کی حفاظت میں ہیں، جلسے جلوس اور ریلیاں ہوں گی یا نہیں عید بعد دیکھا جائے گا۔ جو ’’سائیں‘‘ اوپر بیٹھے ہیں وہ ہرگز کمزور نہیں اپنے کام میں ماہر، انتظامات مکمل ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں واضح کر دیا کہ کچھ نہیں ہو گا۔ کچھ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور جیل میں خان سے ملاقات کے دوران وعدہ کر کے آئے تھے کہ کسی حکومتی اہلکار کو گلے لگائیں گے نہ تصویر بنوائیں گے۔ محسن نقوی کے سامنے آتے ہی گنڈا پور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی طرح سب کچھ بھول گئے گلے پڑنے کا بیانیہ یاد نہ رہا رج کے گلے ملے تصویر بھی وائر ہو گئی، ایک یوتھیے نے غصہ سے لال پیلے ہوتے ہوئے کہا ’’دو رنگی چھوڑ دے یک رنگی ہو جا، سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا‘‘ پہاڑوں کی سرزمین میں رہنے اور پتھروں کے درمیان پرورش پانے والے وزیر اعلیٰ نے موم ہونے ہی میں عافیت جانی ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر سے خط کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں، سب سے الگ سب سے جدا شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ خط بلا ضرورت ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ غبارے سے ہَوا نکل گئی۔ بڑا اچھا بلکہ سنہری موقع ہے کہ ثبوت یعنی نام پتا رینک فراہم کر کے مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔ لیکن مبینہ طور پر ججوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن میں پیش ہونے سے انکار اور پی ٹی آئی کا کمیشن کے قیام کو مسترد کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد عالمی سطح پر اداروں کو بدنام کرنے کے منظم سازش پر عملدرآمد کرنا ہے۔ خط اور پی ٹی آئی قیادت کے اعلانات کی ٹائمنگ اہم ہے۔ بقول شاعر ’’خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو، ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے‘‘ لیکن خط بے مطلب بے مقصد نہیں، خان کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہو رہی ہے۔ ایک اور سزا ہو گی، سانحہ 9 مئی کے 85 ملزموں (20 کی ممکنہ رہائی کے بعد) کو سزائیں سنائی جائیں گی۔ ان کی اپیلیں کیا فاضل جج نہیں سنیں گے؟ اشارہ کافی ہے۔ مذکورہ خط اور وکلا تحریک کے اعلانات حکومت اور اداروں پر دبائو کا حربہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اوپر والے کچھ نہیں کرنے دیں گے۔ چشم پوشی کا رویہ ترک کرنے اور سخت آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یوتھیا سپرے کرانے کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ توسیع کے لیے کسی قانون پر غور کیا جا رہا ہے۔ قانون سازی ہو گئی تو فیصلہ اٹل، جیل کے دروازے آئندہ پانچ چھ سال تک نہیں کھلیں گے۔ ٹرمپ کی کال پر بھی حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ یاد آیا امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی وزیر اعظم کو خط لکھ دیا ہے۔ جس میں مکمل تعاون کی یقین دہائی کرائی گئی ہے لیکن اب جوبائیڈن کے بچوں اور پوتے پوتیوں سے شادیاں کون کرے گا۔

تبصرے بند ہیں.