جس طرح انتخابی مہم چلی اور جس ماحول میں چلی اور پھر نتائج والی رات جو کچھ ہوا یا کیا گیا یا کروایا گیا تو اس کے بعد اندھے کو بھی سمجھ آ جانی چاہئے کہ حکومتی جماعت کو انتہائی محتاط ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی بلنڈر نہیں ہوا کہ جس طرح 2018میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد پے در پے بلنڈرز ہوئے تھے جو بریکنگ نیوز کی شکل میں عوام کے سامنے آتے رہے۔ جن میں خاص طور پر بشری بی بی کے بچوں کے رویے اور پھر سانحہ ساہیوال۔ تحریک انصاف کو تو کسی بھی صورت میں محتاط ہونے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔ اس لئے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کا فن جانتے ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی ناقابل تردید سچائی سامنے آ بھی جائے کہ جس سے انکار ممکن نہ ہو تو وہ اسے ہی اپنا بیانیہ بنا لیتے ہیں۔ ایک قریبی عزیز ہیں جو گھر پر ملنے آئے تو ہم نے اپنے طور پر بڑا تیکھا سوال داغ دیا کہ ہماری دانست میں جس کا جواب ممکن ہی نہیں تھا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آئی ایم ایف کو خط لکھنا اور یورپین یونین کو پاکستان کا جی ایس پی اسٹیٹس ختم کرنے کا کہنا ملک دشمنی نہیں تو انھوں نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر کہا کہ ماموں جب ایک بندے کو آپ ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیں گے تو پھر وہ ایسا تو کرے گا۔ ہم نے کہا کہ پہلے تو یہ غلط فہمی دور کر لیں کہ وہ چھوٹے سے کسی کمرے میں نہیں ہیں بلکہ ان کے پاس آٹھ سیل ہیں اور ہر سیل ایک چھوٹے کمرے کے برابر ہے ان میں سے کوئی خان صاحب کا بیڈ روم ہے تو کوئی ڈرائنگ روم تو کوئی ٹی وی لانج اور کوئی ورزش کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ایک بڑا احاطہ ہے جس میں خان صاحب گیئر والی سائیکل سے سائکلنگ کرتے ہیں جبکہ ان کی فرماائش پر دیسی گھی کے پکوان آتے ہیں اور پھر کیا عمران خان پہلے سیاستدان ہیں کہ جنھیں جیل جانا پڑا ہے کون ساسیاست دان ہے
جسے جیل میں نہیں جانا پڑا اورطویل اسیری برداشت نہیں کی لیکن کسی نے اس طرح کی ملک دشمنی نہیں کی تو انھوں نے اس پر کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا کہ جیسے یہ سب کچھ ان کے ذہن میں پہلے سے موجود ہو اور ترنت موضوع کو ٹوسٹ کیا اور کہا کہ لیکن یہ دیکھیں کہ ان کی مقبولیت کتنی ہے۔
اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ کہ جب ایسے اقدامات کہ جو ملک دشمنی کے دائرے میں آتے ہیں ان کا بھی دفاع کیا جائے۔ دن رات جھوٹ کی فیکٹریوں سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے کا کام جاری رہے تو پھر مخالف فریق کو محتاط ہونا پڑتا ہے اس لئے کہ چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی مخالف کو پروپیگنڈا کا موقع فراہم کر دیتی ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کا رگہ شیشہ گری کا
کوئی ضرورت نہیں تھی محترم گورنر صاحب کو کہ وہ سابق بیوروکریٹ اور وفاقی وزیر احد چیمہ کے بچوں کی فیس کا نوٹیفکیشن جای کرتے اور وہ بھی بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بغیر ایسا کام کرنا آج کے دور میں آ بیل مجھے مارنے کے مترادف ہے۔ اول تو احد چیمہ صاحب اتنے غریب نہیں ہیں کہ وہ ایچی سن کالج میں اپنے بچوں کی فیس ادا نہ کر سکتے۔ دوسرا اگر ایسا کرنا ضروری تھا تو پھر اتفاق رائے سے کام کیا جاتا۔ ہمیں ایک بات پتانہیں کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ جس عہد میں ہم جی رہے ہیں یہ کوئی ستر یا اسی کی دہائی کا دور نہیں ہے کہ جب ایسے کام کر لئے جاتے تھے لیکن یہ دور صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا دور نہیں ہے بلکہ یہ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا کا دور ہے جس پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے اور سب سے اہم بات کہ سوشل میڈیا صارفین پر کسی بھی قسم کی کوئی اخلاقی یا قانونی قدغن نہیں ہے اور نہ ہی انھیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ آپ بیرون ملک بیٹھ کر ہر طرح کی پوسٹ کر سکتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی جنگل میں آگ کی طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت پر لعن طعن شروع ہو گئی۔
اس سارے معاملہ میں ہمیں دو باتوں پر حیرت ہوئی اول وہ لوگ کہ چند سال پہلے آپ کو یاد ہو گا کہ تحریک انصاف کے دور میں جب سرگودھا کے ایک پروفیسر کی ہتھکڑی لگی لاش مظلومیت اور بے بسی کی حالت میں ریاستی جبر اور پولیس گردی کا نوحہ سنا رہی تھی تو اس وقت جو لوگ دفاع کر رہے تھے آج وہی لوگ ایچی سن کالج کے پرنسپل کے استعفے کو ایک سانحہ قرار دے رہے ہیں اور صرف سانحہ ہی قرار نہیں دے رہے بلکہ اس میں مزید مرچ مصالہ بھرنے کے لئے دنیا بھر میں مختلف ممالک میں اساتذہ کی عزت و تکریم کے حوالے سے جو قوانین ہیں ان کا حوالہ دے کر حقیقی اور غیر حقیقی واقعات بیان کئے جا رہے ہیں۔ دوسرا جس طرح اور جس انداز میں گورنر صاحب پر باقاعدہ چارج شیٹ لگا کر پرنسپل صاحب مستعفی ہوئے ہیں اس پر بھی کافی حیرت ہوئی لیکن اس ایک واقعہ سے حکمران طبقہ کو سبق سیکھنا چاہئے کہ کیا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں۔ ایک اور اسی طرح کا معاملہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے متعلق میڈیا میں خبریں تھیں کہ انھوں نے بھی کروڑوں روپے کے اخراجات کے لئے کہا ہے۔ دونوں واقعات غلط ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فیس معاف کروانے کے حوالے سے کالج رولز کیا ہیں لیکن اگر ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوٹی فکیشن جاری ہوا ہے تو غلط ہوا ہے۔ اسی طرح اس انتہائی مشکل معاشی صورت حال میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کی تزئین و آرائش یا گاڑیوں پر کروڑوں روپے خرچ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے اچھے خاصے مثبت کاموں میں بھی کیڑے نکالے جا رہے ہیں تو اس طرح کی غلطیاں اگر کی جائیں گی تو یہ تو بندر کے ہاتھ ماچس دینے والی بات ہے لہٰذا احتیاط کا دامن تھامے رہیں کہ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔
تبصرے بند ہیں.