آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مالیاتی جائزے کی تکمیل کے بعد سٹاف سطح کے معاہدے کے بعد پاکستان کو اپریل میں ایک ارب دس کروڑ ڈالر مل جائیں گے ۔ اس رقم کو رکوانے کے لئے بھائی لوگوں نے کوشش تو بہت کی اور حیرت اور افسوس کے ساتھ ہی یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کوشش ہمارا ازلی دشمن ہندوستان تو کرتا ہے لیکن اب اپنے بھی کرنے لگ گئے ہیں اور اس کا محور و مرکز فقط اور فقط اپنی ذات ہے ۔ عمران خان کی ہدایت پر پہلے تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کو خط لکھا اور پھر صرف اسی پر اکتفا نہیںکیا بلکہ جب آئی ایم ایف کی جانب سے چٹا جواب مل گیا کہ ہم سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تو بجائے اس کے کہ شرم اور ندامت محسوس کرتے لیکن ہٹ دھرمی کے ساتھ اس کے بعد یورپین یونین کو میلز کرنا شروع کر دی کہ پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم کیا جائے ۔ یہ اقدام اس قدر سنگین ہے کہ اگر یورپین یونین اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان سے یہ سہولت واپس لے لیتی ہے تو پاکستان یورپین یونین کو کم و بیش 9ارب ڈالر کی جو برآمدات کرتا ہے اس سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے تھے جس کے بعد پاکستان میں سیکڑوں کی تعداد میں کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو جاتیں اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اس شدید مہنگائی کے دور میں لوگ بیروزگار ہو جاتے ۔ اس کے بعد ایک تیسری کوشش امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی سب کمیٹی برائے جنوبی اور سینٹرل ایشیا میں امریکی سٹیٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کی سماعت رکھوائی گئی اور رکھوانے والے اسے ایک ماسٹر سٹروک کہہ رہے تھے لیکن وہاں بھی منہ کی کھانا پڑی لیکن ان اقدامات سے کچھ لوگوں کے چہرے ضرور پہچانے گئے کہ ذاتی مفاد کی خاطر کس حد تک جا سکتے ہیں ۔
تمام منفی ہتھکنڈے بری طرح ناکام ہوئے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ۔نہ تو آئی ایم ایف نے گھاس ڈالی اور یورپیش یونین نے تو کچھ کہنا بھی مناسب نہیں سمجھا لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس ہزیمت کے بعد اب یہ ان اوچھی حرکتوں سے باز آ جائیں گے تو یہ خام خیالی ہو گی اس لئے کہ ان منفی ہتھکنڈوں سے کچھ اور حاصل ہو یا نہ ہو لیکن ملک میں ایک بے یقینی کی فضا طاری رہتی ہے جو کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے زہر قاتل ہے ۔اس گفتگو کا مقصد مثبت پہلوئوں کے ساتھ ساتھ جو فائول پلے ہو رہے ہیں قارئین کو ان سے بھی آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ گذشتہ دنوں آرمی چیف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات ہوئی اور عرب ممالک سے بڑی خوش آئند خبریں آ رہی ہیں کہ برادر عرب ممالک سے آنے والے دنوں میں بڑی سرمایہ کاری متوقع ہے اور یہی موجودہ سیاسی قیادت کا وژن ہے کہ قرض یا امداد کے بجائے ہمیں سرمایہ کاری چاہئے تاکہ قرض کی صورت میں مستقبل میں اس قرض کی ادائیگی اور سود سے نجات مل سکے جبکہ سرمایہ کاری کی شکل میں ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اس کے بر عکس بیروز گاری میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی ۔اس کے علاوہ برادر پڑوسی ملک ایران سے پیپلز پارٹی کے دور میں گیس پائپ لائن کا ایک معاہدہ ہوا تھا لیکن پھر ایران پر پابندیوں کی وجہ سے وہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا لیکن نگران حکومت کے آخری دنوں میں سرد خانہ میں پڑے اس منصوبہ پر دوبارہ کام شروع کر دیا گیا تھا اور یہ بات بھی اہم ہے کہ ایران کی جانب سے پہلے ہی پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھا دی گئی ہے ۔ اس سے ایک تو صنعتی صارفین کو سستی گیس ملے گی جس سے ان کی پیداواری لاگت میں کمی سے برآمدات میں اضافہ کا امکان ہے دوسرا گھریلو صارفین کو بھی سستی گیس ملنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے ۔
سب سے اہم بیان کی حد تک علامتی ہی سہی لیکن وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بدھ کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ کوشش کریں گے کہ آئندہ قرض نہ لیا جائے ۔ یہ ایک بہت اہم بات ہے اور خاص طور پر اس ماحول میں کہ جب ہر طرف سے معیشت کے حوالے سے ہا ہا کاری مچی ہوئی ہے اور ہر شخص خدا نخواستہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی بات کر رہا ہے۔اس بیان سے یقینا بہت سے لوگوں کو خوش گوار حیرت ہوئی ہو گی لیکن یقینا کچھ لوگ صدمہ سے دو چار ہوئے ہوں گے ۔ خوشی ان لوگوں کو ہوئی ہو گی کہ جو حقیقی معنوں میں محب وطن ہیں اور ملک کی جو انتہائی نازک معاشی صورت حال تھی اس میں ان کا خیال تھا کہ پتا نہیں کتنا قرض لے کر ملک دیوالیہ ہونے سے بچے گا تو ایسے میں مستقبل میں قرض نہ لینے کی نوید قوم کے لئے ایک انتہائی خوش آئند بات ہے اور صدمے کی کیفیت کا شکار وہ لوگ ہوں گے کہ جو ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سازش کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیر اعظم نے یہ بات کس بنیاد پر کی ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستانی قوم بے یقینی اور نا امیدی کی جس صورت حال سے دو چار تھی اس میں یہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے ۔ بقول شاعر
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
اس کے علاوہ روس سے سستے تیل اور گیس کا جو معاہدہ ہوا تھا امید ہے کہ اس پر بھی دوبارہ کام شروع ہو گا ۔ ہم نے ہمیشہ ایک بات کہی ہے کہ مشکلات ضرور ہیں لیکن اگر نیک نیتی ہو تو ان مشکلات سے نکلا جا سکتا ہے ۔ اس میں یقینا دوست ممالک بھی مدد کریں گے اور دوسرا اب ریاست یہ فیصلہ بھی کر چکی ہے اور خدا کرے کہ ہم اس پر قائم رہیں کہ اب خارجہ محاذ پر فیصلے کرتے ہوئے ہمارے سامنے امریکہ نہیں بلکہ ملکی مفاد ہو گا ۔ یہ وہ امکانات ہیں کہ جن کے حقیقت بننے میں کوئی زیادہ عرصہ نہیں لگے گا اور یہی وجہ ہے کہ کچھ قوتوں کو پڑتھو پڑے ہوئے ہیں
لیکن کیا تمہیں بتائوں اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا اب سال دوسرا ہے
یہ 2014 ہے اور نہ ہی 2022 ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.