زرہ مری صبر، عزم خنجر

81

 

نیاشمسی سال 2024ء زلزلہ خیز حالات سے گزرتا اب ماہِ مبارک رمضان میں داخل ہوگیا۔ رمضان ہمیشہ سے ماہِ قرآن ہے۔ ’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں (واضح تعلیمات)ہیں جو حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘ (البقرہ۔ 185) اس مرتبہ غزہ قرآن کے تیارکردہ زندہ کردار دنیا کی اسکرینوں پر دکھا رہا ہے۔ قرآن کس طرح بے مثل عزم وثبات، صبر ویقین، عظیم قربانیاں دینے والے کرداروں میں ڈھل جاتا ہے۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن! یہودی کردار کی پوری قرآنی تاریخ سامنے آ گئی۔ کریم رب ایک پوری قوم پر برسہا برس، صدیوں تلک نعمتیں برساتا چلا گیا۔ ساتھ ہی یہودیوں کی طویل فہرست قتلِ انبیاء کے گھناؤنے جرائم سے لے کر اب تابوت کی آخری کیلوں میں سے ایک غزہ ہے۔ (جس کے بعد دجال اور پھر زمین کا پاک ہو جانا باقی ہے۔) 5مہینوں میں ہر وہ تکلیف جو یہود نے قوم فرعون کے ہاتھوں بدترین غلامی میں اٹھائی، سے لے کر ہولوکاسٹ تک، اب غزہ پربرسا ئی گئی ہے۔
گمراہی دنیا سے چھٹنے لگی۔ وہی مغرب جہاں توہینِ رسالت، توہین قرآن نے مسلمانوں کے دل چیر ڈالے آج قرآن کی دعوت سے سیراب بڑی تعداد میں مسلمان ہو رہے ہیں۔ لندن میں نمایاں مقامات پر لگے بڑے بڑے پوسٹر قرآنی مختصر آیات سے دعوتِ فکر دے رہے ہیں باضمیر، غزہ پر بے قرار غیرمسلموں کو۔یہ صرف غزہ کے خون کی برکت ہے۔ کل تک اس کا تصور بھی ناممکن تھا! صہیونی یہودیوں کے خلاف چیخ وپکار آسمان تک سنائی دینے لگی۔ سب جان گئے کہ انہیں مغضوب کیوں قرار دیا گیا۔ دنیا غزہ کی تایید میں یک زبان یک جا ہوگئی۔ خود یہودیوں میں سے سلیم الفطرت لوگ اسرائیلی مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ نے کم وبیش سبھی رمضان، حالت جہاد، جہاد کی تیاری یا جہاد سے واپسی کے سفر میں گزارے ہیں۔ ارضِ فلسطین، اقصیٰ کے محافظین آج اسی سنت کو تازہ کرتے غزہ، مغربی کنارے اور اقصیٰ کے گرد وپیش قدس پر جانیں لٹا رہے ہیں۔ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ایک مغربی مسلمان نوجوان نے صہیونیوں کو مخاطب کرکے کہا: ’تم سب ظالم خوفزدہ، کمزور اور بزدل ہو۔ جبکہ فلسطینیوں کا عزم بے پناہ مضبوط ہے۔ ان کے لیے زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں۔ تم انہیں شکست کیونکر دے سکتے ہو جن کے نزدیک موت ایک نئی زندگی کا آغاز ہے!‘ یہ خود حیاتِ نو پا رہے ہیں، اسلام کو نئی زندگی (نشاۃ ثانیہ) مل رہی ہے جو نئے قالبوں کی تلاش میں ہیں۔ جو مسلمان تقلیدِ کفر سے اپنی خودی ناکارہ کر چکے، وہ بوسیدہ، ناکارہ، فرسودہ نظام جسے دنیا رد کر رہی ہے، اسی کا طواف کر رہے ہیں۔ بائیڈن، ٹرمپ، نیتن یاہو جیسے بھیڑیوں درندوں کو شرما دینے والے مظالم، بہیمیت کے پشت پناہ اور مرتکبین کے پیرو ہیں۔ خوبصورت ننھے بچوں کی مسلی کچلی لاشیں، رہائشی عمارات کے ملبوں تلے دبے ان کے مسلمان بہن بھائی بچوں کے لیے دنیائے کفر اپنے شب وروز ایک کیے دے رہے رہی ہے۔ لندن کا مظاہرہ اتنا بے پناہ بڑا اور جذبات الاؤ بھڑکا دینے والا تھا کہ یہودیوں کے پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی۔ کہنے لگے: لندن تو اب یہود کے لیے ’نوگو ایریا‘ (ممنوعہ علاقہ) بنتا جا رہا ہے۔ برطانوی سیاہ فام عیسائی نے ایک فلسطینی کو انٹرویو دیتے کہا کہ میں انسان ہوں! یہ کیسے ممکن
ہے کہ میں یہ قتلِ عام چپکا بیٹھا دیکھتا ہوں؟ یہ یرغمالیوں کی بات کرتے ہیں۔ (غزہ کی کھلی جیل میں) 20لاکھ یرغمالیوں کا کیا بنا؟ کیا عجب ہے کہ دنیا سے یہ سوال کرنے والا برطانوی اور عیسائی ہے! مگر غیور اور زندہ ہے!
رمضان پوری امت کے لیے بھاری فردِ جرم لیے کھڑا ہے۔ مسلمان منہ موڑے رمضان کے لیے خرید وفروخت میں مصروف ہیں۔ جبکہ غزہ میں فاقہ کشی، بیماری، بمباریوں کے ڈیرے ہیں۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کو اسرائیلی جہازوں سے پرچیاں پھینکی گئیں قابض فوج کی طرف سے رمضان کی مبارک باد دیتے۔ ’کھانے کھاؤ، حسنِ کلام ملحوظ رکھو۔ تمہیں دعا دیتے ہیں مقبول روزے، گناہوں کی مغفرت اور مزیدار افطار کی باذن اللہ۔ دستخط شدہ: ’صہیونی فوج کی جانب سے، حقیقی فاتح‘! اور ہم تماشائی ہیں! کتنی ہی اذیت ناک تصاویر، شہریوں کے لیے میدان جنگ بنے غزہ میں اقصیٰ کے لیے بھوک برداشت کرتے گھونٹ گھونٹ آنسو پیتے شہید بچوں، لڑکیوں کی۔ بھوک پیاس سے خشک ہونٹ، کھلے منہ، چہرہ سوکھ کر کانٹا سا، آنکھیں ادھ کھلی ظلم کی دہائی دیتی دیکھیں۔ رمضان سے پہلے ہی روزے کاٹتے ان پیاروں کے لیے بے ساختہ روزہ کھلنے کی دعا لبوں پر آگئی۔ ’چلی گئی پیاس، تر ہوگئی رگیں اور ثابت ہوگیا اجر!‘ باذن اللہ رحمت کا فرشتہ شرابِ طہور کے ساتھ یہ روزے کھلوائے گا شہادت پر! پیاس کی سیرابی دائمی ابدی راحتوں کی نوید لائی ہوگی۔ رگ رگ میں اتری بھوک، دکھ تکلیف کبھی نہ ختم ہونے والے اجر لیے سب غم بھلا دے گی! رہا مسئلہ ہسپتالوں سے اٹھائے ڈاکٹروں، طبی عملے اور دیگر بے حساب نوجوانوں کا جو قید میں خوفناک ترین آزمائشوں سے دوچار بتائے جا رہے ہیں، ہم اللہ ہی سے اپنے غم واندوہ کی فریاد کرتے ہیں۔ تاہم جہاں ہمارے آنسو بے بسی اور شرمساری کے عکاس ہیں وہاں سانس لینے کو چند ساعتیں بھی فلسطینیوں کو میسر آتی ہیں، تو وہ ہمارے آنسو پونچھنے آن پہنچتے ہیں!
یہ رفح ہے جہاں آمدِ رمضان کا فلسطینی اپنے انداز سے استقبال کر رہے ہیں۔ اجڑے، بچھڑے بچوں کو خوش، مضبوط اور ثابت قدم رکھنے کیلیئ ہاتھ کی بنی رنگ برنگی لالٹینیں، جھنڈیاں، ننھی روشنیاں جگمگا کر رمضان پر اظہارِ مسرت کیا جا رہا ہے۔خاتون پُرجوش پُرعزم لہجے میں کہتی ہے: اس سال ماہِ مبارک اگرچہ بہت مختلف ہے مگر ہم صبر اور ثبات سے ہمیشہ کی طرح رمضان کا استقبال کریں گے۔ دعاؤں سے، شکرگزاری، ننھی منی سجاوٹوں، تکبیر، تہلیل، روزے اور راتوں کے قیام سے! ہم صرف قبولیت کے لیے دعاگو ہیں۔ یہ آنے والے سالوں کے لیے صحت، عافیت، برکات کے ساتھ آئے۔ ان شاء اللہ، باذن اللہ اگلے سال غزہ میں رمضان بہتر صورت حال میں آئے گا۔ تباہی، محاصرہ، یہ سب بدل جائے گا! یہ ہے غزہ کی مومنہ، اقصیٰ کے لیے محافظ جننے والی بہادر نمونہئ عمل عورت جسے مغربی عورت بھی اب رشک اور احترام سے دیکھ رہی ہے! ملبے کا ڈھیر بنی محرابوں میناروں والی مسجد کے پہلو میں ادا کی جاتی پہلی تراویح…… پوری امت کے بے ذوق سجدوں پر دلیل ہے!یہاں؟ 8مارچ مناتی حقوقِ نسواں زدہ خواتین کی 48منٹ کی ویڈیو دیکھنے کی فرصت تو ناممکن تھی۔ تاہم جہاں سے بھی جھانکا عورتیں گاتی بجاتی ناچتی تھرکتی نظر آئیں۔ بعض جگہ تو لڑکے، خواجہ سرا، یا ظالم مرد بھی اظہار ِیکجہتی کو ’چھین کے لیں گے آزادی‘ مارچ میں ہمراہ تھے۔ اذیت ناک تو ’انا دمی فلسطینی‘ (میرا خون فلسطینی ہے) کے نشید پر تھرکتی یہ کم لباس بے حجاب لڑکیاں تھیں۔ غزہ میں بہتے پاکیزہ خون، شہادتوں کا مذاق اڑاتی یہ کلپ اپنے اندر اسرائیلی لڑکیوں کی ظالمانہ حسِ مزاح کی عکاس تھی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ ایٹمی قوت، میزائل بردار! تاہم یہ اینٹی میزائل فورس (خواتین مارچنیاں) پورے تشخص پر پانی پھیرنے کو کافی ہیں! شناخت کم کردگان!
کیمبرج یونیورسٹی میں اسرائیل کا زقوم بونے والے بالفور کا بہت بڑا قیمتی پورٹریٹ برطانوی مظاہرین نے لال پینٹ (فلسطینی خون کی عکاسی) سپرے کرکے تباہ کردیا! بلارقص وسرود! یہ ہے: انا دمی فلسطینی! اظہار رائے کی آزادی!
تاحال رفح کے سر پر رمضان میں اسرائیل کے زمینی آپریشن کا شدید خطرہ موجود ہے جہاں 15لاکھ لوگ 24مربع میل رقبے میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ ادھر قدس میں ہر سال رمضان میں فلسطینی اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی بے تابی کے جرم میں شدید تشدد، گرفتاریوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ 2021ء کی 11روزہ جنگ اسی کشمکش کا شاخسانہ تھی۔ باوجودیکہ 2015ء معاہدے کی رو سے مسجد اقصیٰ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ مگر عہد شکنی میں طاق اسرائیل ہر رمضان میں فلسطینیوں پر اقصیٰ میں ٹوٹ پڑتا ہے تشدد کرنے! اس سال بدتر کی توقع ہوسکتی ہے۔ اللہ ان کے شرور سے ارضِ فلسطین کو نجات دے۔ (آمین)
زرہ مری صبر، عزم خنجر
خیال مرکب! نگاہ نیزہ
میرے لیے تشنگی ہے چھاگل
مرے لیے فاقہ، میرا توشہ

تبصرے بند ہیں.