کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کی مہم

124

مودی کی بھارتی حکومت غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کی جائیدادوں ضبط کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے سرینگر میں اربوں روپے مالیت کی 11 جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے مبینہ بینک فراڈ کی آڑ میں کشمیریوں کی 11 جائیدادیں ضبط کی ہیں۔

مودی حکومت نے اپنے تازہ ترین اقدام میں کولگام اور جموں اضلاع میں 2 کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ بھارتی پولیس اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نے کولگام میں ایک کشمیری اعجاز احمد گنائی کے زیر تعمیر مکان اور ضلع جموں کے علاقے بشنہ میں بلدیو راج کے گھر پر قبضہ کر لیا۔ پولیس نے ان کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کے غیر قانونی اقدام کا جواز فراہم کرنے کیلئے دونوں کشمیریوںکو منشیات کا اسمگلر قرار دیاہے۔بھارتی قابض حکام پہلے ہی سرینگر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے ہیڈ کوارٹر اور سید علی گیلانی شہید، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی اور جماعت اسلامی سمیت حریت رہنمائوں اور تنظیموں کی ملکیت سینکڑوں مکانوں اور جائیدادیں ضبط کر چکے ہیں۔ قابض حکام نے مقبوضہ علاقے میں متعدد رہائشی مکانات، دکانیں، شاپنگ کمپلیکس اور دیگر املاک کو مسمار بھی کر دیا ہے۔

مقبوضہ کشمیرمیں روزانہ کی بنیاد پر املاک ضبط کرنا کشمیریوںکو بے گھر اور بے زمین کرنے کا مودی حکومت کا ایک نیا ہتھکنڈہ ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں کا مقصد کشمیریوںکو جاری جدوجہد آزادی کی حمایت ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ بھارتی فوجی مقبوضہ علاقے میں اپنی پرتشدد فوجی کارروائیوں کے دوران کشمیریوں کے گھروں کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔ جائیدادوں کو مسمار، غیر قانونی طورپرضبط کرنا اور جبری بے دخلی کشمیری عوام کو معاشی طور پر مفلوج بنانے کی بھارت کی منظم مہم کا حصہ ہے۔مودی حکومت جموں وکشمیر پر اپنے فوجی تسلط اور استعماری ہتھکنڈوں سے ماضی میں بھی کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے میں ناکام رہی ہے اور مستقبل میں بھی وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوگی۔

بھارتی تحقیقاتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے مبینہ بینک فراڈ کی آڑ میں کشمیریوں اشفاق احمد زرگر، خلیل احمد مغل، اسراف دیو، اور سید کوثر نیازی کی کروڑوں روپے مالیت کی غیر منقولہ جائیدادوں بشمول کنال اراضی اوردیگر عمارتوںکو ضبط کیا ہے۔ای ڈی نے یہ کارروائی سرینگر میںکینرا بینک کی بڈشاہ چوک برانچ سے مبینہ فراڈ کے بارے میں مائسمہ پولیس اسٹیشن درج کئے گئے مقدمے میں کی ہے۔اس پیش رفت پرسیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سماجی جرائم کی آڑ میں کشمیریوں کی جائیدادیں قرق کرنے کی بھارت کی پالیسی پرسخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر علی نے کہا کہ سماجی جرائم کی آڑ میں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبطگی کو کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔

مودی اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہا ہے جو کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے مکان مسمار کر رہا ہے اور ان کی آبائی زمینیں چھین رہا ہے۔ بی جے پی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کرنا سراسر سیاسی انتقام ہے اور اس کا مقصد انہیں تحریک آزادی کی حمایت سے دستبردار کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ کشمیریوں کی املاک ضبط کرنے کے علاوہ بھارتی فوجی پرتشدد آپریشنز کے دوران کشمیریوں کے گھروں کو مسلسل تباہ کر رہے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں بھارت سے ہندوؤں کو لا کر بسایا جائے اور یوں کشمیر کی آبادی میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔ غیر کشمیری ہندوؤں کو کشمیر میں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت تھی جو کہ 370 آرٹیکل کے تحت ممکن نہ تھا کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت کوئی بھی غیر کشمیر ، مقبوضہ وادی میں جائیداد یا زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اسی لئے آرٹیکل کو ختم کر کے فلسطین میں یہودیوں کی بستیوں کی طرف یہاں ہندوؤں کی بستیاں بسائی جانے لگیں۔
بستیاں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت ہے جس کیلئے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے دوران بھارتی انتظامیہ جھوٹے مقدموں کے ذریعے کشمیریوں کی جائیداد ہتھیانے لگی ہے۔ قابض بھارتی فوج اور انتظامیہ’’اسرائیلی ماڈل‘‘ پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کی جائیدادوں پر انتہاپسند ہندوؤں کو آباد کیا جاسکے اور نسل کشی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ’’اسرائیلی ماڈل‘‘ پر کام کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا اعلان بھارتی وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تھا۔

پاکستان کے ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن نے فتویٰ دیا ہے کہ کشمیریوں کیلئے اپنی جائیداد بھارتی ہندوؤں کو فروخت کرنا یا انھیں کرایہ پر دینا شرعاً ناجائز ہے۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ایسی صورتحال میں کشمیری اپنی جائیدادیں بھارتی ہندوؤں کو فروخت کر سکتے ہیں جب ظالم وجابر بھارتی حکمرانوں نے کشمیرکے مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کرنے کیلئے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی ہے۔

تبصرے بند ہیں.