پشاور : پشاور ہائیکورٹ میں سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔
عدالتِ عالیہ کا جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے معاملے پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 51 ڈی پر بحث کریں تاکہ واضح ہو جائے، کیا سنی اتحاد کونسل ایک پارٹی ہے یا نہیں؟ کیا صدارتی، سینیٹ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے؟
دوران سماع ت جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پوچھا کہ قاضی صاحب کیا آپ دلائل دینگے،جس پر قاضی انور نے کہا کہ اگر کل تک ملتوی کردیں تو میں دلائل دے سکتا ہوں، نو تعینات ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے بھی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔
بعد ازاں
عدالت نے سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل علی ظفر کے بروقت نہ پہنچنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا، اس وقت ارٹانی جنرل منظور عثمان دلائل دیے۔ پشاور ہائی کورٹ نے 6 آئینی سوالات اٹھائے ہیں، جبکہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کو آج طلب کر رکھا تھا۔عدالتِ عالیہ نے آئینی سوالات پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، رہنما پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی اور نیئر بخاری عدالت میں پیش ہوئے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا، سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد تصور ہوئے، آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوا؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا، آپ نے 21 فرروی کو مخصوص نشستوں کی لسٹ دی؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہم نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرنے کے بعد لسٹ دی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ مخصوص نشستیں خالی چھوڑ دی جائیں تو پھر پارلیمنٹ مکمل نہیں ہو گی۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ مخصوص نشستیں دوسری پارٹیوں کو نہیں دی جا سکتیں، اگلے الیکشن تک خالی رہیں گی۔
وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سنی اتحاد کونسل کی کئی مخصوص نشستیں بنتی ہیں، کیا آئین میں ایسا کوئی آپشن ہے کہ ایک پارٹی کی مخصوص نشستیں دیگرپارٹیوں میں تقسیم کی جائیں، جس پرعدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کو نمائندگی دینے کے لیے کوئی فیصلہ کرے گا نا ؟ اگر کسی جماعت کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں تو ایسے تو یہ خالی رہ جائیں گی؟
دوران سماعت عدالت نے علی ظفر اور بابر اعوان کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لاکھوں کیسز دیکھنے پڑ رہے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہئے، ہم دوبارہ دوبارہ آپ کے لیے نہیں بیٹھ سکتے۔ عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل بھی پہنچ گئے، بیرسٹر ظفر نہیں آئے۔ وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کے استفسار پر جواب دیا کہ علی ظفر اڈیالہ جیل گئے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ وہ نہیں آرہے تو آپ ہی دلائل دیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ مجھے وقت دیں کہ میں تھوڑی تیاری کر لوں۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ ہر وقت تیار رہتے ہیں، ہم انٹیرم ریلیف واپس لے لیں گے۔
دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کل سینیٹ کے انتخابات بھی ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، سیاسی جماعت انتخابات میں نشستیں لینے کے بعد پارلیمانی جماعت بن جاتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کے مطابق سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں، سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹری پارٹی ہے یا نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن جیتنے والی جماعت پارلیمنٹری پارٹی کہلاتی ہے،آزاد ارکان صرف پارلیمنٹری پارٹی کوجوائن کرسکتے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دوران سماعت کہا کہ سیاسی جماعت کیلئے لازمی ہے اپنے نشان پر الیکشن لڑے ، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، پارلیمنٹ میں نمائندگی والی جماعت کومخصوص نشست مل سکتی ہے،سنی اتحاد کونسل کی کوئی جنرل نشست ہے نہ مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرائی گئی ۔
علاوہ ازیں پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی دلالئل دیے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے دائر درخواستیں سماعت کے لئے مقرر ہوئی تھیں۔
گزشتہ سماعت پر لارجر بینچ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاونت کے لئے طلب کیا ہے، عدالت نے چھ آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔
عدالت نے آئینی سوالات پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کررکھی ہے۔
تبصرے بند ہیں.