سیاست وحکومت کی لڑ کھڑاتی سانسیں

97

حکومتیں پالیسی سازی کرتی ہیں۔ عوام کی بہتری اوربھلائی کے لئے ملکی تعمیرو ترقی کے لئے دیرپا وژن دیتی ہیں، منصوبہ سازی کرتی ہیں، منصوبوں کوعملی شکل دینے کے لئے پلاننگ کی جاتی ہے، سوچ و بچار کی جاتی ہے، عوام کے فوری مسائل حل کرنے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ وسط مدتی منصوبے تشکیل دیتی ہیں، طویل مدتی پلاننگ کرتی ہیں اس طرح ملک و قوم کو تعمیرو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرکے عظیم بنایاجاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم (45-1939) تباہی و بربادی کا پیغام لے کر آئی۔ یورپ کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا۔ طویل جنگ میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے کروڑوں انسان ہلاک ہوئے، کروڑوں مجروح ہوئے کروڑوں بے گھر ہوئے، ایک پوری نسل جنگ کے. صدمے کا شکار ہوئی۔ انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے انسان کو برباد کیا۔ سفید انسان نے سفید انسان کا خون بہایا – تہذیب یافتہ اقوام ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور بے تہذیبی کے ریکارڈ قائم کر دیئے گئے۔ پھر تباہی و بربادی کی اس خاک سے جدید یورپ اٹھا۔ اقوام مغرب نے مل جل کر رہنے کا سلیقہ سیکھا۔ عام انسان عام شہری، اپنی قوم کے باسیوں کی فلاح و بہود کاایسا نظام ترتیب دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے گل وگلزار کھلنے لگے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام مغرب ہی نہیں بلکہ کئی اقوام مشرق بھی تہذیبی ومعاشی ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ جاپان کو دیکھ لیں دوسری جنگ عظیم کا سب سے بڑا شکار تھا۔ دو ایٹم بموں نے نہ صرف ہیروشیما اور ناگا ساکی کو برباد کر دیا تھا بلکہ جاپانی تہذیت کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ ہم نے دیکھا تباہی وبربادی کی خاک سے ایک عظیم الشان جاپان ابھرا۔ صنعتی و معاشی ترقی کی روشن مثال بنا۔ تہذیب یافتہ اورترقی یافتہ اقوام کی صف میں نمایاں مقام کا حامل جاپان پوری دنیا کے لئے ایک روشن مثال بن چکا ہے۔چین اور ہندوستان، اقوام مشرق کی تعمیر و ترقی دو روشن مثالیں ہیں۔ چینی ایک افیونی قوم تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والی مفلوک الحال قوم اسکی قیادت نے عظیم آبادی کو ایک قوت میں تبدیل کرنے کی منصوبہ سازی کی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ چین دنیا کی عظیم ترین، ترقی یافتہ اقوام کی صف اول میں کھڑا ہے مغربی تہذب کو چیلنج کئے بغیر کسی جنگ و جدل کے بغیر بین البراعظمی طاقت بن چکا ہے معاشی ترقی ہو یا تجارت کا معاملہ، تعمیر وترقی کی بات ہو یا امن کا معاملہ چین ہمیں صف اول میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال ہندوستان کا ہے جو عالمی سیاسی سفارتی محاذ پر ہی نہیں بلکہ معاشی محاذ پر بھی چھایا ہوا ہے انہوں کے اپنی عظیم آبادی کو ایک قوت کے طور پر استعمال کرکے اپنے آپ کو دنیا کی عظیم معاشی اقوام کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ہم ابھی تک کسی منزل کے راہی نہیں بنتے ہیں اسرائیل کو دیکھ لیں۔ قلیل آبادی کے باوجود وہ ایک عالمی قوت بن چکا ہے۔ فنی تکنیکی،ہالی اور سفارتی ذہانت و ذکاوت نے 1 کروڑ 40لاکھ نفوس پر مشتمل اس شیطانی افلاطونی نسلی گروہ کو عالمی فیصلہ سازی میں
ایک فیصلہ کن طاقت بنادیا ہے 230 ملین سے زائد عربوں کو تگنی کا ناچ نچوا رہا ہے فلسطینیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کر رہا ہے انہیں بیخ وبن سے اکھاڑنے کی راہ پر چل رہاہے کوئی اسکا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔ فلسطینی نسل کشی کا شکار ہیں۔ اسرائیلی، یہودی و صہیوتی تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود، ذہانت و ذکاوت کی دولت سے مالا مال ہیں۔اس طرح وہ عظیم اسرائیل کی تعمیرکے لئے بڑی یکسوئی کے ساتھ مصروف عمل ہیں جبکہ مسلمان (اہل عرب و عجم) کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اقوام عالم اور اہل اسلام میں پاکستان ہر لحاظ سے ایک قابل ذکر ملک و قوم ہے آبادی کے لحاظ سے 250 ملین کی آبادی بہت بڑی بات ہے۔ عظیم الجثہ اورقوی افواج ہمارا افتخار ہی نہیں بلکہ دنیا کے لئے باعث رعب بھی ہیں ہم اپنی آبادی میں نو جوانوں کی شرح کے اعتبار سے اول نمبرپرہیں۔ ہم چندایٹمی ممالک میں شمار کئے جاتے ہیں۔ زراعت و آبپاشی کے حوالے سے بھی ہم اہم ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ 300 ارب ڈالر سے زائدخام قومی پیداوار رکھتے ہیں۔ ہمارے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر ہم حقیقتاً فخر کرسکتے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں خدمات سرا نجام دے رہے ہیں اربوں ڈالر کما کر یہاں بھیجتے ہیں اور ان ممالک میں تعمیرو ترقی کے عامل کے طور پر باعزت مقام پر فائز ہیں اب ہم پاکستان میں جاری سیاسی و معاشی ابتری کی طرف آتے ہیں یہاں 1971کے بعد سے ہم ایک کے بعد ایک نئے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ 1979 میں جب سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان عالمی چپقلش میں فرنٹ لائن ریاست بن گیا۔ 10 سال تک جنگ جاری رہی۔روسی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ طالبان کے عروج اور 2001 میں افغانستان پر امریکی اتحادی افواج کشی نے پاکستان کو ایک نئی جنگ میں دھکیل دیا 20 سال تک یہ جنگ جاری رہی2021 میں امریکی اتحادی افواج کی واپسی کے بعد یہاں ہم طالبان کے ساتھ ایک ان دیکھی جنگ میں ملوث ہو چکے ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ افغان طالبان ہمارے ساتھی ہیں ہمارے دوست ہیں ہم نے دونوں جنگوں کے دوران انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر انکی مدد کی ہے ہمیں امید واثق تھی کہ جب وہ کا بل پر حکمران ہونگے تو ہمیں وہاں سے ٹھنڈی ہوائیں آئیں گی لیکن بدقسمتی سے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد انکے کندھوں پر سوار ہو کر ہمارے خلاف مصروف جنگ ہیں پاکستان دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔ اندرون ملک بھی سیاسی دہشت گرد دندناتے ہوئے پھررہے ہیں۔ 9 مئی کے واقعات نے اندرون ملک، ریاستی دشمنوں کو بے نقاب کیا ہے ریاست انکے ساتھ نمٹنے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم بالجزم کا اعلان بھی کرتی ہے۔ حالیہ کور کمانڈر کانفرنس کے بعد کے اعلامیے نے بھی اسی عزم بالجزم کا اظہار کیا ہے لیکن ایسے نظر آ رہا ہے کہ ریاست کے ساتھ کوئی بھی کندھا ملا کر سیاسی جنون و دہشت گردی کو کیفر کردار تک پہنچانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ عمران خان اور ہم نوا الیکشن 2024 کے بعد اور بھی نڈر اور بے باک ہو کر سامنے آرہے ہیں۔ سیاستدان بشمول نواز شریف شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلال بھٹو،مولانا فضل الرحمان دیگر اپنی اپنی سیاست کو چمکانے میں مصروف ہیں انہیں ریاست کے ساتھ مل کر ریاستی دشمن کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ عمران خان ایسے تمام سیاستدانوں کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لئے للکار رہا ہے، اس نے فکری میدان میں ان سب کو شکست دے دی ہے عمران خان کا ریاست دشمن، سیاست حاظرہ دشمن بیانیہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ عمران کے ماننے اور چاہنے والے مکمل طور پر چار جڈہیں وہ کسی بھی حکومتی یا ریاستی رکاوٹ سے ٹکرانے اور اسے پاش پاش کرنے کا عزم لئے اپنے لیڈر کے اشارے کے منتظر ہیں طویل عرصے سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاستدان حالات کی نزاکت سے بے خبر سیاست سیاست اور اقتدار اقتدار کھیل رہے ہیں حالانکہ انکی سیاست بھی اکھڑی سانسیں لے رہی ہے اور اقتدار بھی لڑ کھڑا رہا ہے۔ عامتہ الناس کی بھلائی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.